درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’یہ تو اور زیادہ دلچسپ بات ہے‘‘۔

’’اپنی دلچسپیاں بس آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘حمید نے کہا۔ ’’ خاکسار کے تو خاک بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔‘‘

’’  مزدوروں کی تکرار سے تم نے کیا ا ندازا لگائی۔

’’بس تکرار تھی۔‘‘

’’لیکن لایعنی نہیں ۔ ‘‘فریدی نے کہا۔ وہ اس سے پہلے بھی اس ٹرک کا مال اتار چکے تھے آخر اس بار انہیں اس سےکیوں محروم رکھا گیا ۔

’’اچھا اب گھر چلیے ۔ ‘‘

’’حمید نے اکتا کر کہا۔‘‘

’’گھر پہنچ کر فریدی کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا اور کبھی کبھی وہ بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلنے لگتا۔

اسی دن دس بجے رات کو وہ کہیں جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے کار نکالی اور ایک طرف چل پڑا۔ وہ یوں ہی بلا مقصد شہر کی سڑکوں کے چکر کاٹتاپھر رہا تھا تقریباً بارہ بجے وہ کرنل سعید کے بنگلے کے پاس سے گزرا۔

آگے لے جا کر کار کھڑی کر دی پھر تین بار انجن کھولا اور بند کیا ۔ غالبًا یہ کسی قسم کا اشارہ تھا۔ جس پر ایک آدمی تاریکی سے نکل کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا کار کے پاس آیا۔

’’ انسپکٹر صاحب ! ‘‘آنے والے نے آہستہ سے کہا۔

’’آؤ بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

’’وہ فریدی کے برابر بیٹھ گیا اور کار چل پڑی۔

’’کوئی خبر ‘‘

’’ گیارہ بجے رات کو وہ کہیں گئی ہے‘‘

’’ا کیلئے‘‘۔

’’نہیں‘‘

’’کون تھا اس کے ساتھ ۔‘‘

’’ایک آدمی ‘‘۔ اس نے کہا ۔’’ لیکن میں اسے پہنچانتا نہیں‘‘۔

’’ فریدی نے اپنی جیب سے دو تین تصویریں نکال کر اسے دیں۔ ان میں سے کوئی تھا ۔ فریدی نے کہا۔ وہ آدمی ٹارچ کی روشنی میں تصویریں دیکھنے لگا۔

’’ یہ تھا سو فیصد یہی تھا ۔ اس نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’ ہوں ‘‘۔ فریدی نے کہا اور تصویر میں لے کر جیب میں رکھ لیں۔

’’کوئی اور بات ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔ اور کچھ نہیں۔‘‘

Leave a Comment