’’ ذرا کچھ خالی پلیٹیں عنایت فرمائیے حمید نے کہا۔
’’کیوں ؟ ‘‘شیلا نے پوچھا۔
’’ہوا کھانے کے لئے ‘‘
’’بات کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘فریدی نے پر اسامنہ بنا کر کہا۔ ’’میں تو یہ سمجھاتھا کہ تم کوئی ایسی بات کہو گے کہ سب بے ساختہ ہنس پڑیں گے۔‘‘
’’اب اگر آپ اس جملے کی گہرائی تک نہ پہنچ سکیں تو میں کیا کروں ‘‘۔ حمید جھینپ کر بولا۔
پکنک سے واپس آنے کے بعد فریدی نے لباس تبدیل کیا اور سید ھاچلا گیا۔ حمید شہناز کو منا تا ہوا اس کےگھر تک چلا گیا تھا۔
فریدی شاذونادر کوتوالی کی طرف جاتاتھا۔ اس نے یا اس کی موجودگی دوسروں کی نظر میں خاصی اہمیت رکھتی تھی۔
آج بھی اسے وہاں دیکھ کر لوگ یہ معلوم کرنے کے لئے ۔ بے چین ہو گئے کہ وہ کس لئے آیا ہے لیکن کسی کی تشفی نہ ہوئی۔
جگد یش آج کل کو تو الی انچارج تھا۔ فریدی کی امداد نے اسے اتنی جلدی ترقی کے ان مدارج تک پہنچارہاتھا۔
پرنے اور تجربہ کار سب انسپکٹر منہ ہی دیکھتے رہ گئے اور جگدیش کو تو الی انچارج ہو گیا اس وقت وہ آفس میں بیٹھاپرانے فایل دیکھ رہاتھا۔ فریدی کو دیکھ کر بے ساختہ کھڑا ہو گیا۔’’ آئیے آئے انسپکٹر صاحب میں کئی دن سے ارادہ کر رہا تھا کہ آپ سے ملوں۔
جگدیش بولا۔
تم دو ہی تو آئے ہو میرے حصے میں۔ ایک حمید دوسرے تم بہانے بازی کے ماہر ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
نہیں آپ سے سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’خیر خیر ‘‘فریدی بیٹھتے ہوئے بولا ۔ کیا کوئی ضروری کام کر رہے ہو ۔‘‘
’’چلئے‘‘ جگدیش نے کہا۔
’’ ٹیکسی کر کے دونوں وکٹوریہ پارک پہنچے ۔ آج کل بیکاری کی وجہ سے طبیعت اکتا یا کرتی ہے۔‘‘
’’یہاں تو دم مارنے کی بھی فرصت نہیں رہتی۔‘‘ جگدیش نے کہا۔
’’ میر اخیال ہے کہ اس دوران میں کوئی خاص قسم کا حادثہ نہیں ہوا۔‘‘ فریدی سگار سلگا تا ہوا بولا۔
’’بعض اوقات بہت ہی عام قسم کے حادثے خاص سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں۔‘‘
’’آؤ کہیں ٹہلیں گے ۔
چلے۔ جگدیش نے کہا۔
’’کیا آج کل کام زیادہ ہے۔‘‘
’’ آج کل کیا ہمیشہ کام زیادہ رہتا ہے۔‘‘
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
’’ارے ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ کرنل سعید کی آٹھ سالہ بچی کھو گئی جس کے گلے میں ایک بیش قیمت ہیروں کا ہار تھا۔‘‘
’’تو کیا ہوامل ہی گئی ہوگی ۔‘‘
’’یہی تو مصیبت ہے کہ آج تک اس کا پتہ نہیں لگ سکا ۔‘‘