’’لیکن یہ ہار یہاں جھیل میں کیسے پہنچا۔‘‘
’’بھئی تم بھی کمال کرتے ہو۔ ابھی یہی نہیں کہا جا سکتا کےیہ وہی ہار ہیں۔میں محض تصویر کی بنا پر اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرلینا درست نہیں سمجھتا۔‘‘
حمید پھر خاموش ہوگیا۔ فریدی کچھ سوچنے لگاتھا۔سیخ پروں کا جھنڈ شور مچاتا ہواان کے اوپر سے گزر گیا۔دونوں رک گئے۔انہیں توقع تھی کی یہ جھنڈ دو تین چکر لگانے کے بعد یہیں جھیل میں گرے گا۔ وہ تھوڑی دیر تک انتظار کرتے رہے لیکن ان کا خیال غلط تھا۔سیخ پروں نے دو چکر لگائے اور پھر مشرق کی طرف اڑتے چلے گئے۔
’’غلبًا یہ اگلے تلاب میں گریں گے۔‘‘فریدی نے کہا۔
’’کون سا تا لاب۔‘‘حمید نے پوچھا۔
’’یہاں ست تھوڑی دور پر ہے آؤ چلیں۔
دونوں اسی طرف روانہ ہوگئے جدھر سیخ پروں کا جھنڈ گیا تھا کھیتوں اور جھاڑیوں سے نکل کر وہ ایک کچی اور کشادہ سڑک پر آگئے۔ مطلع ابر آلود تھا کبھی بھی سورج بادلوں سے نکل کر اپنی تیز کر نیں پھیلانے لگتا۔ جہاں یہ لوگ چل رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کھائیاں تھیں ۔جن پر سرکنڈے کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔
’’ شاید کوئی موٹرآرہی ہے‘‘فریدی نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’موٹر کہاں ‘‘حمید بولا۔ مجھے تو دکھائی نہیں دیتی ۔‘‘
’’آواز تو سنائی دے رہی ہے لیکن شاید ابھی دور ہے۔ آؤ کھا ئیوں کے ادھر نکل چلیں ورنہ گرد کے ایک طوفان سے مقابلہ کرنا پڑےگا۔
دونوں داہنی طرف کی کھائیوں پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد سڑک پر موٹرکی آواز آئی اور پر دفتًامشین بند کردی گئی حالانکہ یہ کوئی ایسی خاص بات نہ تھی پھر بھی فریدی کی کھوجی طبیعت بے چین ہوگئی۔ وہ رگیا ۔
کھائی کے قریب آکر اس نے سرکنڈے کی جھاڑیوں سے سڑک کی طرف جھا نکاایک ٹرک سڑک پر کھڑا ہوا تھا۔ اور ڈرایئور نے نیچےاتر کر ادھر اُدھر دیکھا اور پھر اتنے میں حمید بھی فریدی کے قریب آگیا۔
ٹرک ڈرائیورموٹرکے نمبروں کی تختی تبدیل کر رہا تھا۔ اس نے پہلی تختی نکال لی اور اس کی جگہ دوسرے نمبروں کی تختی لگادی تھوڑی دیر تک کھڑ ا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا پھرٹرک پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کردیا اور ٹرک چل دیا۔
حمید نے سوالیہ نظروں سے فریدی کی طرف دیکھا جس کے ماتھے پر بے شمار سلوٹیں اُبھر آئی تھیں۔
’’یہ معالمہ کیا ہے۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’آج سارے واقعات انتہائی پر اسرار نظر آرہے ہیں ۔‘‘
’’اور اس کی شروعات تم ہی سے ہوئی۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔
’’کیا مطلب‘‘ ۔
’’یہ آج صبح ہی تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا تھا‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ہٹا ئیے ان باتوں کو ۔‘‘ حمید بولا ۔ ’’ آخر اس نے ٹرک کے نمبرکیوں بدلے ؟‘‘
’’بدلے ہوں گے بھئی ‘‘۔ فریدی اکتا کر بولا۔ وہ سنو!سیخ پروں کا شور سنائی دے رہا ہے۔ شاید ہم تالاب کے قریب پہنچ گئے ہیں ‘‘۔