’’ کمرہ کھول کر ہوٹل والا واپس چلا گیا۔ یہ تنگ و تاریک کمرہ تھا جس میں سلین کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ فریدی نے جیب سے ایک دیا سلائی نکالی اور طاق پر رکھی ہوئی موم بتی روشن کر دی۔
تھوڑی دیر کے بعد فریدی ایک ادھیڑ عمر کے سب انسپکٹر کے بھیس میں کمرے سے بر آمد ہوا۔ اس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور کرنل سعید کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔۔
آہستہ آہستہ تاریکی پھیلتی جارہی تھی۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں کے بلب روشن ہو گئے تھے شہر کی چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ ہوٹل کے سامنے کاروں تانگوں کے جمگھٹے تھے۔
فریدی سوچ میں ڈوبا ہوا کرنل سعید کے بنگلے کی طرف جارہا تھا۔ تقریبًا پندرہ منٹ کے بعد اس نے ٹیکسی ایک جگہ رکوائی اور کرایہ ادا کر کے پیدل چل پڑا۔
چند لمحوں کے بعد وہ کرنل سعید کے بنگلے کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہا تھا نوکر سے اطلاع کرانے پر وہ ڈرائنگ روم میں بلوالیا گیا جگدیش ایک نوجوان اور خوبصورت عورت سے باتیں کر رہا تھا۔۔
’’واہ انسپکٹر صاحب !میں آپ کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔‘‘ فریدی نے جگدیش سے کہا’۔
’’ آئیے آئیے ! ‘‘جگدیش ایک کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ ’’ ایک ضروری کام سے مجھے یہاں چلا آنا پڑا۔ بہر حال میں آپ کے لئے کوئی توالی میں کہہ آیا تھا۔ کہئے آپ کے علاقے میں سب خیریت ہے نا ؟‘‘
’’جی ہاں کوئی خاص بات نہیں۔‘‘
فریدی کی نظریں دیوار پر لگی ہوئی ایک تصویر پر جم گئیں یہ تصویر اسی عورت کی تھی جسے اس نے ہیروں والے ہار میں دیکھا تھا۔ فریدی نے اطمینان کا سانس لیا جگدیش اسے کرنل صاحب کی لڑکی کی گمشدگی کا حال بتانے لگا۔ فریدی دلچسپی اور تو جہ سے سنتا رہا۔ درمیان میں و ہ بول بھی پڑتا تھا۔ عورت خاموش تھی کبھی بھی ایک آدھ ٹھنڈی سانس لے کر وہ بے چینی سے صوفے میں کسمسانے لگتی ۔
’’اور ابھی بیگم صاحبہ کی زبانی معلوم ہوا کہ جگہ پیش عورت کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔ ’’ اس صدمے کی وجہ سے کرنل صاحب کے دماغ پر نے برُااثر پڑا ہے۔
’’یعنی ‘‘۔ فریدی نے پوچھا۔
’’دماغی حالت درست نہیں۔ اکثر وہ اپنے کتے کو دیکھ کر بھونکنے لگتے ہیں۔ جگدیش نے یہ جملہ کچھ ایسے احمقانہ انداز میں کہا کہ فریدی کو ایک بے ساختہ قسم کاقہقہ ضبط کرنا پڑا۔ اچھا ۔
فریدی عورت کی طرف دیکھ کر بولا۔
جی ہاں بہت ہی تشویشناک حالت ہے۔ ‘‘عورت نے کہا۔
فریدی نے اس کی آواز میں ایک عجیب طرح کی کشش محسوس کی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے دور کہیں ویرانے میں دفعتاً گھنٹیاں سی بج اُٹھی ہوں۔
’’واقعی یہ حادثہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔ فریدی بولا ۔ ’’ کیا رات کو یہاں کوئی باہر کا آدمی آیا تھا۔ ‘‘
عورت دفعتًا چونک پڑی۔
’’جی نہیں نہیں تو‘‘ ۔ وہ جلدی سے بولی۔
’’اکثر مہمان تو آتے ہوں گے۔‘‘
’’ اس وقت کرنل صاحب کہاں ہیں۔‘‘
’’میں نے بتایا نا کہ ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ انہیں نوکروں کی نگرانی میں ایک الگ کمرے میں رکھا گیا ہے۔‘‘
’’ اوہ فریدی بولا ۔ اتنی خراب حالت ہے۔‘‘
تھوڑی دیر اور رسمی گفتگو کرتے رہنے کے بعد جگدیش اور فریدی اٹھ گئے فریدی کا ایک مقصد تو حل ہو ہی گیا تھا۔ کرنل سعید کے ڈرائنگ روم میں لگی ہوئی تصویر نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ جھریالی سے نکلنے والا ہار وہی تھا جو کرنل کی لڑکی پہنے ہوئے تھی ۔