’’کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ تمہارے دوست اشرف کے بنگلے کے قریب ہی رہتا ہے۔‘‘
’’نہیں مجھے اس کا بھی علم نہیں ۔ ‘‘
’’خیر مجھے اس کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہوگئی ہیں۔ یہ معاملہ مجھے دلچسپی لینے پرمجبور کر رہا ہے۔ ہاں دیکھو اس بار کا تذکرہ اس وقت تک کسی سے نہ کرنا جب تک میں اجازت نہ دوں۔‘‘
’’تو پھر اس ہار کا کیا کیا جاے حمید نے پو چھا۔
’’یہ دوران تفتیش میری تجوری میں رہے گا ۔ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔
’’آخر یہ اس کی پشت پر تصویر کس کی ہے‘‘
’’غلبًالڑکی کی ماں کی تصویر ہے ۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ کیا اخبار میں اس تصویر کے متعلق کچھ نہیں تھا ۔ ‘‘
’’نہیں حمید نے کہا ۔’’ اس سلسلے میں اشرف سے معلومات بہم پہنچائی جاسکتی ہیں۔‘‘
’’لیکن براہ کرم آپ اس سے بازر ہے گا ۔ مجھے جو کچھ معلوم کرنا تھا معلوم کر چکا۔ اب ذرا ثر یا سے گفتگو کرنی ہے۔‘‘
’’کیا اے یہاں بلا لوں۔‘‘حمید نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘فریدی نے کہا۔’’ہمیں یہ کام نہایت خاموشی سے کرنا ہیں۔‘‘
’’حمید کچھ سوچنے لگا فریدی بھی خاموش ہو گیا۔
’’بھئ اب تو بری طرح بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’اب ایسی باتیں نہ کیجئے کہ میں اپنا انگوٹھا چوسنے لگوں ۔‘‘حمید ہنس کر بولا۔
’’کاش تم یہی کر سکتے‘‘
’’کیوں کیا اس طرح بھی ایک کامیاب جاسوس بننے کے امکانات ہیں۔‘‘
’’کیوں نہیں ! ‘‘کیا تم غزالہ کے چچاپر ویز کو بھول گئے ۔ وہ کتنی صفائی سے انگوٹھا چوستا تھا۔‘‘
’’لیکن وہ جاسوس کب تھا۔‘‘
’’اگر مجرم نہ ہوتا تو یقیناً ایک کامیاب جاسوس ثابت ہوتا ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ثریا وغیرہ نے دستر خوان لگا دیا۔
’’لیکن اس دسترخوان پر صرف چار آدمی بیٹھ سکیں گے۔ میں ثریا۔ اشرف بھائی اور فریدی صاحب۔ بقیہ لوگوں کے لئے الگ کوئی انتظام کرنا پڑے گا ۔
’’بقیہ لوگوں میں مجھے قطعی بھوک نہیں ہے۔ شہناز چڑ کر بولی۔
’’ اور بقیہ لوگوں میں میں بھو کا قطعی بھوکا نہیں ہوں۔ ‘‘حمید اس طرح رک رک کر گھبرائی ہوئی آواز میں بولا کہ شہناز کے علاوہ سب لوگ ہنس پڑے۔
’’تو بہتر ہے آپ لوگ کہیں دور جا کر ہوا کھائیے ۔ ثریا چہک کر بولی۔