میں نے کئی بارڈاکٹر وحید کو اس کے یہاں جاتے دیکھا ہے آج سے پہلے مجھے یہ بات نہیں معلوم تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر وحید جس کا پہلےمیں نام بھی نہیں جانتا تھا اس کا کوئی ملنے والا ہے۔‘‘
’’تو یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ کرنل سعید ان سے اپنا علاج کرا رہا ہے۔ ‘‘فریدی نے پوچھا۔
’’محض قیاس کی بنا پر یہ لوگ بوڑھوں کو جوان اور بزدلوں کو شیر بناتے ہیں نا کرتل سعید کو اپنی جوان بیوی کی موجودگی میں جو ان بنے کی سخت آرزو ہے۔“
’’اوہ فریدی نے کہا اور پھر تھوڑی دیر بعد بولا ۔ اور اس غریب بچی کا کیا ہوا۔‘‘
’’کچھ پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
’’غائب کس طرح ہوئی تھی ۔‘‘
’’گھر سے غائب ہو گئی ۔‘‘
’’کیا گھر میں تنہا تھی ۔‘‘
’’اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ اس دوران میں کرنل شہر میں موجود نہیں تھا۔“
’’کہیں باہر گیا تھا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’بیوی گھر ہی میں رہی ہوگی ۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ وہ کیا کہتی ہے۔“
’’اس کے متعلق مجھے علم نہیں ۔ اس نے پولیس کو اپنا بیان ضرور دیا ہوگا۔
’’کرنل اس پر بگڑا تو بہت ہوگا۔“
’’ ہو سکتا ہے، وہ اپنی بیٹی کو چاہتا بہت تھا ۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ کسی نے اسے زیور وغیرہ کی لالچ میں قتل کر دیا ۔ فریدی نے کہا۔ ’’کیا وہ زیورات پہنتی تھی۔“
’’آپ ہی کا نہیں بہتوں کا یہی خیال ہے۔ وہ ہیروں کا ایک ہار پہنے ہوئے تھی۔“
’’ہیروں کا ہار اور آٹھ سال کی بچی ۔ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے عرض کیا تا کہ کرنل اسے بہت عزیز رکھتا تھا۔‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ کہ کرنل کافی مالدار آدمی ہے۔“
’’خاندانی رئیس ہے۔‘‘