کرنل صاحب بہت اکھٹر آدمی ہیں۔ اس لئے اگر انہوں نے کچھ دشمن پیدا کرلئے ہوں تو کوئی یہ تعجب کی بات نہیں لیکن میں یہ نہ بتا سکوں گی کہ ان کا دشمن کون ہے ویسے تو جتنے بھی ان سے ملنے کے لئے آتے ہیں سبھی ان کے جگری دوست معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘
فریدی کے استفسار پر کرنل کی بیوی نے کئی ایسے لوگوں کے نام اور پتے لکھوائے جو اس کے گھر آیا کرتے تھے لیکن ان میں ڈاکٹر وحید کا نام نہیں تھا۔ فریدی کچھ سوچنے لگا۔
حمید غور سے کرنل کی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ اس کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہو۔
فریدی اس سے چند اور سوالات کرنے کے بعد واپس جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ سرینج اور شیشی کرل کی بیوی کی اجازت سے اس نے اپنی جیب میں ڈال لی تھیں۔
جگدیش وہیں رہ گیا حمید اور فریدی کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔
’’مجھے تو اس عورت پرشُبہ ہے ۔ حمید بولا۔
فریدی نے کوئی جواب نہ زیادہ کچھ سوچ رہا تھا۔
’’ آوارہ معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘حمید پھر بولا۔
’’کیوں ؟‘‘ آوارہ کیوں معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ اس لئے کہ اس کے بائیں پیر کی چھوٹی انگلی کے پاس والی انگلی تناسب کے اعتبار سے چھوٹی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے و ہ بقیہ انگلیوں کی سطح سے کچھ اونچی ہو۔‘‘
’’کی فضول بکواس ہے۔ فریدی کچھا اکتا کر بولا۔
’’صدیوں کے تجربات کا نچو ڑ پیش کر رہا ہوں ۔ ‘‘حمیدبولا ۔
’’بکومت ۔‘‘
’’اور جب وہ خاموش ہوتی ہے تو اس کے ہونٹ کھل جاتے ہیں اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر اس سے کیا ۔‘‘
’’اور مسکراتے وقت اس کے گالوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں ۔ ‘‘حمید بولا ….آسکر وائلڈ نے لکھا ہے کہ یہ نطفئہ ناتحقیق ہونے کی علامت ہے۔‘‘
فریدی بے اختیار ہنس پڑا۔
’’ابھی تک تو وہ خود آوارہ تھی اور اب تم اس کی ماں کی آوارگی ثابت کرنے بیٹھ گئے۔ فضول بکواس کر کے میرا دماغ مت خراب کرو۔
’’ایسی باتوں سے دماغ روشن ہوتا ہے۔‘‘
’’پھر وہی۔‘‘
’’تندرستی اچھی رہتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں نہیں اڑ تیں، سر نہیں چکر آتا، آنکھوں کی کھوئی ہوئی روشنی واپس آجاتی ہے۔
دانت مضبوط اور چمکدار ہو جاتے ہیں، خواب صاف دکھائی دیتے ہیں۔ آدمی بھوت پریت کےسائے سے محروم رہتا ہے …..اور…..‘‘
’’ اور بابا بند کرو یہ بکواس ۔ ‘‘فریدی اکتا کر بولا۔
حمید خاموش ہو گیا۔ کار تیزی سے چلی جارہی تھی۔ سڑک کے پر رونق بازار چھوڑتی ہوئی وہ ایک سنسان سڑک پرمڑگئی۔