’’بھائی حمید میں بھلا ان کی زبان کون روک سکتا ہے۔‘‘ جگدیش نے ہنس کر کہا۔
تو پھر تمہارا کیا ارادہ ہے۔ فریدی نے جگدیش سے پو چھا۔
’’یہی پوچھنے کے لئے تو حاضر ہوا ہوں کہ کیا ارادہ کروں۔‘‘
’’فی الحال یہ ارادہ کرلو کہ تم کچھ نہ پوچھو گے۔‘‘ حمید بولا۔
’’خیر چلوفریدی بولا۔ اس نے کپڑے پہنے اور جگدیش کے ساتھ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ابھی وہ دونوں برآمدے ہی میں تھے کہ حمید بھی تیار ہو کر آ گیا۔
’’ تم کہاں چلے۔ فریدی نے پوچھا۔
’’جہاں آپ ‘‘
’’ہم تو کرنل سعید کے یہاں جارہے ہیں۔‘‘جگدیش نے کہا۔
فریدی کی کار کرنل سعید کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گئی۔ کرنل سعید کے پائیں باغ میں وہ سب انسپکٹر اور تین چار کانسٹبل بیٹھے نوکروں کے بیانات لے رہے تھے۔ انہیں دیکھ کروہ کھڑے ہو گئے۔
’’ کوئی خاص بات جگدیش نے ایک سب انسپکڑنےا سے پوچھا ’’ابھی تک تو کوئی کام کی بات نہیں معلوم ہوسکی‘‘۔
’’ سب ا نسپکڑنے کہا یہ تینوں انہیں وہیں چھوڑ کر یہ برآمدے میں آئے جہاں کرنل سعید کی بیوی بیٹی کرنل سعید کے چند دوستوں کواس کی گمشدگی کے متعلق بتارہی تھی۔
’’معاف کیجیےگا‘‘جگدیش نے کہا۔ ’’ ہم ایک بار اور آپ کو تکلیف دیں گے۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘ کرنل کی بیوی اُٹھتی ہوئی بولی۔
’’ ہم کرنل صاحب کے سونے کا کمرہ د یکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ضرور کرنل کی بیوی نے کہا پھر اپنے مہمانوں سے معذرت کرنے کے بعد فریدی وغیرہ کے ساتھ ہولی۔ یہ لوگ کرنل کے سونے کے کمرے میں آئے جو بہت بھی فراخدلی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔
دیواروں پر زیادہ ترنیم عریاں تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ ایک آدھ جگہ جنسی معلومات سے متعلق چارٹ بھی لٹکے ہوئے تھے ۔
فریدی متجس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا پھر وہ مسہری کے قریب آیا۔
اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلااور اس نے سرہانے رکھی ہوئی ایک سرینج اٹھالی پھر کرنل کی بیوی کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے کچھ کہنے کے لئے سوچ رہا ہو۔
کیا اس سرینج کے متعلق میں کچھ پوچھ سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں وہ اکثر اپنے ہاتھ سے خود ہی انجکشن لیا کرتے تھے۔ کرنل کی بیوی نے کہا۔ ‘‘
’’کس قسم کے انجکشن ‘‘
’’درد گردہ کے ۔‘‘