’’اچھا ٹھہروں ابھی بتاتا ہوں کہ انگور کھٹےہیں یا میٹھےہیں۔‘‘ فریدی نے کہا اور شہناز کے قریب پہنچ کر بلند آواز میں بولا۔‘‘ میاں اگر عورت کھانا نہ پکائے تو مرد بھوکوں مرے اور سارا رومان رکھا رہ جائے ۔
’’ کیا بات ہے ؟‘‘شہناز نےفریدی سے پوچھا۔
حمید صاحب فرما تے ہیں کہ انہیں کھانا پکاتی ہوئی عورت انتہائی لچر معلوم ہوتی ہے۔‘‘ فریدی سنجیدگی سے بولا ۔
قبل اس کے کہ حمید کچھ کہتا شہنازنے اسٹور پر رکھا ہوا فرائی پان زمین پر الٹ دیا اور مچھلی کے قتلے ادھر ادھر گھاس پر بکھر گئے اور منہ پھُلا کر جابیٹھی۔
’’ارے ارے میں نے کب کہا تھا۔‘‘حمید بوکھلا کر بولا۔ فریدی نے قہقہہ لگایا۔ ثریا شیلا اور اشرف بھی ان کے قریب آگئے۔
’’ارے یہ کیا ہوا۔‘‘ ثریا حیرت سے شہنازکی طرفدیکھتی ہوئی بولی۔
’’کچھ نہیں فریدی ہنس کر بولا۔میاں حمید اب میٹھے انگور کھا کر پیٹ بھریں گے ….کیوں حمید ۔‘‘
حمیدکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے جھنجلا ہٹ اور ندامت نے اسے کچھ بولنے ہی نہ دیا۔
’’ تو کیا پھر یہ دونو لڑگئے ۔ شیلا نے کہا۔ ’’عجیب معصیبت ہے ارے بھئی ہم لوگوں نے کیا قصور کیا تھا۔ بھوک کے مارےبرُ احال ہور ہا ہے ۔
شہناز نے کوئی جواب نہ دیا۔ بدستور منہ پھلائے بیٹھی رہی ثریائے پھر سے فرائی پان اسٹور پر رکھا اور بچے ہوئے قتلےتلنے لگی ۔ شیلا اور اشرف سیخ پروں کے پرنوچنے لگے۔
’’ آپ خواہ مخواہ حمید فریدی کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’اچھا جی مجھ سے کیا مطلب ۔‘‘
’’آپ نے خواہ مخواہ جھوٹ ‘‘
’’انگور کھٹے ہیں نا۔‘‘
’’بہر حال آپ کا مذاق بھی خطر ناک ہوتا ہے۔‘‘ حمید منہ لٹکا کر بولا۔
’’میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا ک انگور کھٹےنہیں ہیں۔ بلکہ اس قسم کے فضول نخرے برداشت کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں ۔ فریدی سنجیدگی سے بولا ۔
عورت بات بات پر روٹھتی ہے اور متوقع رہتی ہے کہ اسے کوئی منائے گا اور اگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو اسے اپنی زندگی ویران نظر آنے لگتی ہے۔
وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی ہمد ردنہیں ۔
اس کا وہ وقتی طور پر روٹھ جانا ایسی صورت میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب کہ کوئی اسے منائے –
لیکن اگر اس کی یہ توقع پوری نہ ہوئی تو یہی حالت ایک مستقل مظلومیت بن جاتی ہے اور یہ بھی سمجھ لوکہ اگر کسی عورت کو مظلومیت کیا خبط ہو گیا تو مرد کے لئے ایک مستقل عذاب بن جاتی ہے کیا سمجھے‘‘