’’اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ ان کے سائن بورڈ ہیں‘‘ اشرف ہسنتا ہوا بولا۔ ایک سائن بورڈ پر لکھا ہے۔ یہ دلوں کو شیر بنانے کا کارخانہ خیر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں لیکن دوسرا سائن بورڈ تو بالکل ہی احمقا نہ ہے۔
اس پر لکھا ہے۔ ’’یہاں تو ٹوٹے پھوٹے آدمیوں کی مرمت کی جاتی ہے۔‘‘ سب لوگ بے ساختہ ہنس پڑے لیکن فریدی ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا ۔
’’کیاآپ سچ کہہ رہے ہیں ۔ فریدی تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا۔ خود چل کر دیکھ لیجیے گا ‘‘اشرف نے کہا۔
’’ایسے موقع پر حمید صاحب کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوگی ۔’’ ثریابولی۔
’’ مجھے امید ہے کہ اس سے جھریالی پر ضر ور ملاقات ہوگی ۔ ’’فریدی نے کہا۔’’کیا کہہ کر گئے ہیں ‘‘شہناز نے پوچھا۔
’’میں انہیں اس لئے سنارہا ہوں کہ اب بھی اپنا فیصلہ بدل دیں ۔‘‘ فریدی بولا اور شہناز جھینپ گئی۔
’’ اب زیادہ نہ چھیٹر ہیے ورنہ یہ اس کی کسر حمید صاحب سے نکال لیں گی ۔ ‘‘شیلا نے کہا۔
تقریبا دو گھنٹے بعد وہ لوگ جھریالی پہنچ گئے۔ یہ ایک پُر فضا مقام ہے بلکہ اگر اسے شکار گاہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا تقریبًا دومیل کے رقبے میں ایک خوبصورت جھیل پھیلی ہوئی ہے جس کے چاروں طرف سر سبز جنگل ہے جو زیادہ گھنے نہیں۔
در اصل اس جھیل ہی کا نام جھریالی ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے قرب وجوار کا علاقہ بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا ہے۔ یہاں ہرن اور بارہ سنگھوں کا بہت اچھا شکار ہوتا ہے۔ کبھی کبھار وحشی درندے بھی مل جاتے ہیں جن میں تیندوا تو بہت ہی عام ہے۔ جھیل میں مچھلیوں کا اچھا خاصا شکار ہوتا ہے۔
تھوڑی دور ہی فریدی کو اپنی کارکھڑی دکھائی دی ۔ ’’لیکن حمید کہاں گیا ۔ فریدی نے کہا۔
’’کہیں ہوں گے شہناز لا پرواہی سے بولی۔
دفعتًا قریب کی جھاڑیوں میں جنبش ہوئی ۔ حمید نے سرنکال کر باہر دیکھا اور پھر اس طرح پیچھے ہٹ گیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
سب لوگ جھاڑیوں میں گھس گئے۔ حمید نے چھلی پھنسانے کی زور یں جگہ جگہ رکھی تھیں اور ایک پتھر سےٹیک لگائےبیٹا پائپ پی رہا تھا۔ ان لوگوں کے وہاں پہنچ جانے پر بھی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہوئی ۔
’’منانے والوں کو دیکھ کر لوگ رونمای کرتے ہیں۔‘‘ ثریا ہنس کر بولی۔
’’کیا مطلب شیلا بولی۔
’’فریدی صاحب اور شہناز جیسے قدر دانوں کی موجودگی بھلا کسے نصیب ہوگی ۔ ‘‘حمید کے رویّے سے ایسا معلوم ہا تھا جسے دو بہرا ہوگیا ہو، ددفعتًااس نے ایک ڈور کی چرخی چلانی شروع کی اور ایک بڑی سی چھلی کو پانی سے کھینچ کر باہر نکال لیا۔
’’بہت اچھے بہت اچھے ثریا اور شیلا تالیاں بجاتی ہوئی چینخیں’’ اور وہ تجربہ گاہ ۔ فریدی اشرف کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’ان درختوں کے پیچھے ہے !‘‘اشرف نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا تو آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے ۔ فریدی نے بلند آواز میں پوچھا۔ ’’ہم سب پہلے اس عجیب و غریب تجربہ گاہ کو دیکھیں گے۔‘‘ عورتوں نے ایک زبان ہو کر کیا۔
’’ضرور دیکھئے ۔ حمید اچانک ہوا ۔ ’’ قریب قریب آپ بھی کافی ٹوٹے پھوٹے ہیں۔‘‘
’’…..کیا تم اسے دیکھ آئے ہو۔ ‘‘فریدی نے پوچھا۔