جگدیش اور فریدی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے چورا ہے تک آئے جگدیش نے ایک ٹیکسی رکوائی لیکن فریدی نے اپنا ارادہ بدل دیا وہ گھر واپس جانے کے بجائے حمید کے الفاظ میں مٹر گشتی کرنا چاہتا تھا۔
اس کی یہ مٹر گشتی خاص ہی موقعوں پر ظاہر ہوتی تھی جب کوئی خطر ناک کام انجام دینا ہوتا یا جب کوئی الُجھا ہوا معاملہ در پیش ہوتا تو فریدی عموماً شہر کی سڑکوں کے چکر لگا یا کرتا تھا۔
دوسرے دن صبح حمید اور فریدی، کرنل سعید کے متعلق ناشتہ کرتے وقت گفتگو کر رہے تھے۔
’’آخر آپ اسے یہاں کیوں اٹھا لائے ہیں۔ ‘‘حمید بولا
’’اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔‘‘
’’ کیسا چارہ۔ آخر معاملہ کیا ہے۔ میں تو ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ ’’حمید اکتا کر بولا ۔
’’ میں خود ابھی تک کچھ نہیں سمجھ سکا۔ ‘‘فریدی نے کہا۔
’’ تو پھر اسے یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘حمید بولا ۔’’ خواہ مخواہ ہلڑ مچےگا۔‘‘
’’اس کی زندگی خطرے میں تھی ۔‘‘
’’یوں ؟‘‘
’’چند مشاہدات کی بنِا پر میں ایسا کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’جلدی کہہ بھی ڈالیے۔ ‘‘حمید منظر بانہ انداز میں بولا۔
’’ذرا سوچو تو۔ جب اس کی دماغی حالت اتنی خراب تھی تو اسے اس طرح کیوں رکھا گیا تھا کہ وہ آزادانہ باہر نکل آیا۔
دوسرے یہ کہ اس کے کتے کسی کو ٹھری وغیرہ میں بند کرنے کے بجائے باغ میں کیوں باندھے گئے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ وہ کتوں سے لڑنے پر آمادہ رہتا تھا۔ کتوں کو گھر سے ہٹا دینا چاہئے تھا۔
فریدی خاموش ہو گیا ۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔