درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

Darindon Ki Maut Novel By Ibn-e-Safi

احمقوں کاچکّر

صبح کی نَم اور خشک چادر فضا پر محیط تھی۔ سورج بھی نہیں نکالا تھا۔

سرسبز پتیوں پر اُوس کی جھلملاتی ہوئی بوند یں لرزرہی تھی- آسمان صاف تھا۔ نیلا نیلا بیکھرا آسمان اور اُفق میں گہرے رنگوں کی چمک دار دھاریاں تھیں…..

فریدی کے پا ئیں باغ میں سارجنٹ حمید ایک کتاب کی مدد سے قدیم ہند وزمانے کی مختلف ورزشوں کی مشق کر ر ہا تھا کبھی ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر گہرے گہرے سانس لیتا اور کبھی پالتی مار کر بیٹھ جاتا، پھر کتاب میں ترکیبیں دیکھ کر طرح طرح کے منہ بناتا اور پیٹ چپکا کی مشق کرتا۔ فریدی برآمدے میں بیٹھا شیو کر رہاتھا ۔

کبھی کبھی وہ اس کی حماقتوں کو دیکھ کر مسکرا دیتا۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے حمید سر کے بل کھڑا ہو گیا لیکن تو ازن قائم نہ رکھ سکنے کی بنا پر پھر گر پڑا ۔

وہ اپنی گردن سہلانے لگا۔ شاید کوئی رگ چپک گئی تھی پھر اس نے دوبارہ سر کے بل کھڑے ہونے کی کوشش کرنے کے بجائے کتاب کے ورق الٹنے شروع کر دیے۔

اب وہ پھر پالتی مار کر بیٹھ گیا اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر گردن پر رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک ٹانگ تو اس نے کسی نہ کسی طرح رکھ لی لیکن دوسری ٹانگ رکھتے ہی بُری طرح چیخ کر لڑھک گیا۔

دونوں ٹانگیں گردن میں پھنسی ہوئی تھیں اور وہ خود چت پڑا بری طرح چیخ رہا تھا ۔ فریدی شیو کر کے اٹھا۔

حمید کو اس حال میں دیکھ کر چند لمحے کھڑا مسکراتا رہا پھر اندر چلا گیا۔ حمید در اصل  چیخ چیخ کر اسے مدد کے لئے بلا ر ہا تھا لیکن اس کی بے رخی دیکھ کر اسے تاؤ آ گیا اور دو تین جھلائے ہوئے جھٹکوں نے اسے اس سے نجات دلادی۔

وہ سیدھا اندر چلا گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں بندوق تھی ۔ اس نے ورزش کی کتاب ایک طرف رکھی۔ بندوق میں کارتوس چھڑ ھایا اور نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ کتاب کے پر  خہے اڑ گئے۔

’’کیا اودھم مچارکھی ہے‘‘ ۔ فریدی نے برآمدے میں آکر کہا۔

’’آپ سے مطلب! ‘‘حمید نے کہا اور منہ بنائے ہوئے اندر چلاگیا۔

’’آخر تمہارا بچپنا کب رخصت ہوگا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’جب جوانی آئے گی۔‘‘

’’اچھا…. اچھا ….جلدی کیجئے ….وہ لوگ آرہے ہوں گے ۔‘‘

’’میں کہیں نہ جاؤں گا ۔‘‘

’’کیا کہا۔‘‘ فریدی اسے گھور کر بولا ’’ پھر تم نے شہناز وغیرہ سے وعدہ کیوں کر لیاتھا۔‘‘

’’ خیر میں تو بہر حال جاؤں گا ۔ پکنک ہو کر رہے گی ۔ اچھا ہے تم نہ جا کہ تمہاری وجہ سے بڑی بے لطفی ہو جائے گی ۔‘‘

’’جی ہاں بہتر ہے شہناز بھی نہ جائے گی ۔ ‘‘حمید نے کہا۔                                                 

’’ یہ تم سے کس احمق نے کہہ دیا۔ میں اسے کھینچ کر لے جاؤں گا ۔‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ آج ہی دیکھنا ہے کہ وہ تمہاراکہتا مانتی ہے یا میرا ۔‘‘

’’خیر دیکھا جائے گا!‘‘ حمید نے کہا اور غُسل خانے میں گھس گیا۔

Leave a Comment