’’ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ‘‘حمید چونک کر بولا۔
’’ جھریالی ۔‘‘
’’کیوں‘‘
’’ڈاکٹروں سے ملنے‘‘۔
’’لاحول ولاقوۃ خواہ مخواہ وقت بر باد کریں گے آپ ۔‘‘
’’فضول بکواس مت کرو۔‘‘ فریدی بولا ۔
’’تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کرنل سعید کو پاگل بنانے میں انہیں کا ہاتھ ہے۔‘‘
’’یہ میں اس وقت سمجھ سکتا تھا جب سعید قطعی پاگل ہوتا۔ ‘‘
’’تو کیا آپ کو اس کے قطعی پاگل ہونے میں شُبہ ہے ۔ ‘‘
’’قطعی پاگل ہونے سے میری مراد ہر وقت کی بے ہوشی ہے۔ فریدی بولا۔ ’’صرف رات ہی کو وہ کیوں پاگل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’بہت ممکن ہے کہ خود انہوں نے اسے کوئی ایسی دوا دی ہو جس کا وقتی اثر ہوتا ہو ۔ ‘‘حمید بولا۔
’’ یہی سب دیکھنے کے لئے تو چل رہا ہوں ۔ فریدی نے کہا ’’ آخر وقتی طور پر اسے پاگل بنا دینے کا کیا مطلب ہے۔‘‘
’’ کچھ عجیب اتفاق ہے کہ معاملہ لڑکی کی تلاش سے شروع ہو کر باپ کے پاگل پن پر ختم ہو گیا۔ ‘‘حمید نے کہا۔
’’نہیں معاملہ ختم کہاں ہوا۔ وہ تو اب شروع ہوا ہے۔‘‘
’’ وہ انشاء اللہ زندگی بھر اسی طرح شروع ہوتا رہے گا ۔‘‘
’’تم احمق ہو جہاں ذراسی محنت پڑی جان نکلنے لگتی ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’اسے آپ ذراسی محنت کہتے ہیں‘‘۔
’’دیکھو خواہ مخواہ بک بک کرتے رہنے کی عادت اچھی نہیں ۔‘‘
’’معاف کیجئے گا۔ میری یہی بک بک آپ کی کامیابیوں کی ذمہ دار ہے۔‘‘ حمید بولا۔
’’ بہت اچھے بڑی شاندار بکو اس ہوتی ہے آپ کی کاہل اور کام چور عورتوں کی سی باتیں کرتے ہو۔‘‘
’’عورتوں …….ہائے عورتوں ……ذرا ایک بار پھر کہیے۔‘‘حمید سینے پر ہاتھ مارتا ہوا بولا ۔’’ اگر اسی طرح عورت افزائی
کرتے رہے تو کیوں مجھے اکتا نا پڑے۔
’’ پھر وہی عورت ۔‘‘فریدی جل کر بولا ۔ ’’اگر یہی عالم رہا تو ایک دن تم خود عورت ہو جاؤ گے۔“
’’اور آپ اس وقت کہاں ہوں گے ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’جہنم میں ۔‘‘
’’تو گویا نعوذ بالله!‘‘
’’خاموش رہو ۔ ور نہ میں تمہارا سر سٹیرنگ سے ٹکر ا دوں گا ۔ ‘‘فریدی جھنجھلا کر بولا ۔
’’اچھا پھر اس کے بعد آپ کہاں ہوں گے ۔ ‘‘فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت اسے سچ مچ حمید کی بے تکی بکو اس بہت کھل رہی تھی۔
حمید بھی شاید سمجھ گیا تھا۔ اس لئے اس نے بالکل خاموشی اختیار کر لی فریدی کار کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز کرتا جارہاتھا جھر یالی پہنچ کر فریدی نے کارکچے راستے پر اتار دی۔
تجربہ گاہ کے سامنے پہنچ کر کا رک گئی کل ہی والا پہرے دار آج بھی پھاٹک پر بیٹھا ہوا تھا۔ فریدی کو کار سے اترتے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔