ڈاکٹر وحید واپسی میں اس بورے کو کار میں رکھ کر اپنے ساتھ جھریالی لے گیا اور اس بورے کو جھیل میں پھینک کر مطمئن ہو گیا۔ دوسرے دن کرنل کی بیوی نے مشہور کردیا کہ لڑکی ہیروں کے ہار سمیت غائب ہو گئی تا کہ لوگ یہ سمجھیں کسی نے ہار کے لالچ میں اسے کہیں مار کر ڈال دیا ہو گا‘‘۔
’’تو اس نے ان سب باتوں کا اقرار کیا ہے ۔ جگدیش نے پو چھا۔
’’ہاں جیسے ہی میں نے جیب سے و ہ ہار نکال کر اسے دکھایا وہ غش کھا کر گِر پڑی اور پھر ہوش میں آنے کے بعد اس نے اقبال جرم کر لیا۔
’’سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنل سعید کو کیا ہو گیا ۔‘‘
’’ جگدیش نے کہا۔
’’ یہ معمہ تو میری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ شیروں والا معمہ بھی ابھی تک حل نہیں ہوا۔ وہ عمارت تو بالکل خالی تھی جس کے متعلق آپ لوگوں نے کہا تھا کہ وہاں وحشی درندے ہیں۔
’’بہر حال یہ تو تم نے دیکھ ہی لیا کہ شراب کشید کرنے کا کارخانہ اس عمارت میں نکلا۔ تم لوگوں کے پہلے آنے کے بعد میں نے شیروں کی گرج کا راز دریافت کر لیا تھا۔ ان لوگوں کے پاس کوئی وحشی در ندہ نہیں تھا۔ اس کا انداز ہ میں نے اس وقت لگا لیا تھا۔
جب میں نے ان کے یہاں ایک بکرے کو چیتے کے بھیس میں دیکھا تھا اور اس کا راز ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر آصف بوکھلا گیا تھا-
اور وحید جو اس سے زیادہ چالاک ہے، اس کی بھونڈی سی وجہ بتا کر صاف ٹال گیا تھا وہ دراصل اس قسم کی حرکتوں سے پبلک پر رعب ڈالا کرتے تھے چونکہ اس عمارت میں انہوں نے شراب کا کارخانہ بنارکھا تھا، اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا اس عمارت کی طرف کسی کو نہ جانے دیں۔
لہذا انہوںنے وہاں سےلوگوں کو شیروں کی گونج سنانی شروع کیا اور کہنے لگے کہ ابھی ادھر جانا خطر ناک ہے کیونکہ وہاں’’ کٹہیروں کا انتظام نہیں ہے‘‘۔
’’ لیکن وہ گرج تو سچ مچ شیروں کی گرج معلوم ہوتی تھی ۔ ‘‘حمید بولا۔
’’ٹھیک ہے لیکن و ہ شیر اس وقت کہاں مرگئے تھے۔ جب گولیاں چل رہی تھیں اس ہنگامےمیں تو انہیں ضرور دھاڑنا چاہئے تھا لیکن اگر ڈاکٹروں کو ذرا سا بھی موقع مل جاتا تو یقین کرو کہ شیر ضرور گرجتے ‘‘۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ ۔ جگدیش نے کہا۔
’’ ارے بھئی۔ وہ شیروں کی گرج کا ریکارڈ تھا جو مائیکرو فون کے ذریعہ اتنا ہولناک ہو جا تا تھا۔ انہوں نے دوسری عمارت میں کئی بارن فٹ، کر رکھے تھے۔
’’ ہاں …وہاں دیواروں کے اندر لاؤڈ اسپیکر کے ہارن لگے ہوئے تھے اور جنگلی جانوروں کی آوازوں کا ریکارڈ ایک تہ خانے سے بجا یاجاتا تھا۔ بالکل ایساہی معلوم ہوتا تھا ۔ جیسے آوازیں دیوار سے نکل رہی ہوں‘‘۔
’’کمال ہے بھئی ‘‘۔ جگدیش نے کہا۔
’’لیکن آپ کو کرنل کی بیوی پر شبہ کیسے ہوا‘‘۔ حمید نے پوچھا۔
’’پہلے تو ڈاکٹر وحید کے متعلق اس کی غلط بیانی پر میرے ایک مخبر نے مجھے اس کی اطلاع دی کہ کرنل سعید کے غائب ہو جانے کے بعد وحید اسے ایک رات جھر یالی لے گیا تھا۔
تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی با تیں ہوتی رہیں پھر جگدیش اٹھ کر چلا گیا ۔
’’اب کرنل سعید کا کیا ہوگا ۔ حمید نے پو چھا۔
’’میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہے‘‘۔ فریدی نے ۔کہا’’وہ اپنی لڑکی کی موت سے بہت دل شکستہ ہو گیا ہے اور آتنی بڑی بدنامی کے بعد وہ نہیں چاہتا کہ اب اس شہر میں کسی کو اپنا منہ دکھائے ۔
اس نے مجھ سے استدعا کی ہے کہ میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں ۔
وہ یہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہے جہاں اس کا کوئی شناسا نہ ہو۔ میں آج ہی رات کو اسے شہر سے نکال دوں گا۔ مجھے اُمید ہے کہ تم بھی میرے وعدے کا احترام کرو گئے ‘‘۔
فریدی نے کہا اور بیرے کو بل کے پیسے دے کر کھڑا ہو گیا۔