’’ سلام صاحب !‘‘
’’سلام !ذرا یہ کارڈ اندر پہنچوا دو ‘‘۔ فریدی نے اپنا ملاقاتی کارڈ جیب سے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔
پہرے دار نے کسی کو آواز دی۔ ایک آدمی اندر سے آیا اور اس نے کارڈ اسے دے دیا۔
دونوں ڈاکٹر لیبارٹری میں کوئی تجربہ کر رہے تھے انہوں نے فریدی کو و ہیں بلا لیا۔
جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچے اندر سے کسی شیر خوار بچے کے رونے کی آواز آئی اور اندر پہنچ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ آواز ایک خرگوش کے منہ سے نکل رہی تھی جسے ڈاکٹروں نے ایک مشین میں لگےہوئے پنجرے میں بند کر رکھا تھا۔ حمید کو بے اختیار ہنسی آگئی۔
’’ اوہ آپ !‘‘ وحید نے چونک کر کہا۔’’ شاید کل بھی تو آپ آئے تھے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ آپ کون ہیں ۔‘‘
’’اس قسم کا کوئی موقع ہی نہیں آیا تھا۔ ‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’ فرمائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’میں ایک تکلیف دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
’’فرمائے۔‘‘
فریدی نے وہی شیشی جیب سے نکالی جو اس نے کرنل سعید کے بستر پر پائی تھی۔ ’’میں اس سیال کا تجزیہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’ بس اتنی معمولی سی بات میں تو سمجھا تھا کہ شاید آپ کوئی بڑی خدمت مجھ سے لینے والے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر وحید نے مسکرا کر کہا۔ فریدی نے شیشی اسے دے دی اور اس کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لینے لگا۔
ڈاکٹر وحید کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی کے آثار نہ تھے۔ اس نے نہایت اطمینان سے شیشی کا عرق ایک ٹسٹ ٹیوب میں انڈیلا اور اس میں کچھ دوسری چیزیں ملا کر اسپرٹ لیمپ پر گرم کرنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد اس کے منہ سے عجیب قسم کی آواز نکلی اور وہ گھوم کر تحیر آمیز انداز سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ یہ چیز آپ کو کہاں سے ملی ۔ اس نے فریدی سے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ فریدی نے سوال کیا۔
’’میر ا دعواتھا کہ اس کا راز صرف میں ہی جانتا ہوں مگر۔ وہ پریشانی کے لہجے میں بولا۔
’’یعنی۔‘‘
’’ آپ کو یہ کہاں سے ملا؟‘‘
’’ کرنل سعید کے یہاں !‘‘
’’کرنل سعید کے یہاں؟‘‘ ڈاکٹر وحید نے اچھل کر کہا۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’تو وہ حضرت اسے یہیں سے چرا کر لے گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر وحید بے ساختہ بولا۔
’’آپ اسے جانتے ہیں۔‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’ اچھی طرح وہ میرے زیر علاج ہے۔‘‘
’’ کس چیز کا علاج کر رہے ہیں آپ ۔‘‘
’’جنسی کمزوری کا ۔‘‘
’’اوہ لیکن اس شیشی میں کیا چیز تھی ۔‘‘