’’دیکھنا کیسا میں نے تو اپنا نام بھی رجسٹر میں درج کر دیا ہے۔ ایک ما و بعد میر انمبر آئے گا۔‘‘
’’کیا مطلب۔‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’شیر بنے کا ارادہ ہے‘‘حمید نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ یعنی!‘‘
’’دلچسپی کا مشغلہ ہاتھ آ گیا ہے۔ دونوں پر لے سرے کے احمق ہیں ۔‘‘
’’انہیں ڈاکٹروں کا تذکرہ کر رہے ہو۔‘‘
’’جی ہاں ایک انگلینڈر ٹیرن ہے اور دوسرا جرمنی سے ڈگری لے کر آیا ہے۔‘‘
’’خیر وہ تو سب ہے لیکن آپ وہاں سے اس طرح بھاگے کیوں؟ ‘‘شہناز نے تیوری چڑھا کر کہا۔
’’ تا کہ آپ لوگوں کے کھانے پینے کا معقول انتظام کر سکوں میرے خیال سے اب آپ اس چھلی کاو د ھیڑنا شروع
کر دیجئے‘‘حمید نے کہا۔
’’مچھلی تو بعد میں ا دھیڑی جائے گی۔ ‘‘ثریا بولی ۔’’ شہناز کا خیال پہلے آپ ہی کو ادھڑنے کا ہے۔‘‘
’’حمید نے شہنازکی طرف ایسی بے بسی اور مسکنیت سے دیکھا کہ اسے بےساختہ ہنسی آگئی۔
’’ آپ کا خیال غلط ہے۔ ‘‘حمید نےثریا سے کہا۔
’’اچھا تو کون کون چل رہا ہے۔‘‘فریدی نے کہا،سب تیارہوگئے۔
’’کہاں بیکار وقت برباد کرنے جاؤ گی۔‘‘ حمید نے آہستہ سے شہناز سے کہا۔
’’ آپ سے مطلب شہناز نے کہا اور فریدی کے ساتھ ہولی حمید بدستور بیٹھا چرخیاں گھماتا رہا۔
’’ اشرف فریدی وغیرہ کی رہنمائی کر رہا تھا۔ درختوں کے جھنڈ سے گزرتے ہوئے وہ لوگ ایک عمارت کی چار دیواری کے قریب پہنچے پھاٹک پر ایک نیپالی پہرے دار بیڑی پی رہا تھا۔ ان لوگوں کو پھاٹک کی طرف آتا دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔
کدھر جانا مانگتا۔‘‘ وہ بولا۔
’’اندر…. ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔ فریدی نے کہا۔
اچھا ٹھرو، ہم جا کر بولتا۔ ‘‘پہرے دار نے کہا اور اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد لوٹا۔
’’فرمائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں ۔ ڈاکٹر نے کہا۔
’’ہمیں آپ کا سائن بورڈ یہاں تک کھینچ لایا ہے۔‘‘