درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’ارے لاحول ولا قوۃ میں نے یہ کب کہا ‘‘ حمید بولا۔’’ میں نے تمہاری بدگمانی کو مصیبت کہا تھا ۔‘‘

’’تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ شہناز منہ پھلا کر بولی۔

’’فرق۔ ارے بھائی بہت بڑا فرق پڑتا جاتا ہے۔‘‘

’’تو آپ جائیے نا یہاں سے ‘‘

’’نہیں جاؤں گا۔‘‘

’’میں خود اُٹھ جاتی ہوں۔‘‘

’’نہیں اٹھنے دوں گا۔‘‘

’’واہ چھی زبردستی ہے۔‘‘

’’اب زبردستی ہی کرنی پڑے گی ۔‘‘

’’بھئی آپ خواہ مخواہ بات بڑھارہے ہیں ۔

’’بھئی میں دفعان ہو ا جا رہا ہوں ۔‘‘حمید نے اٹھتے ہوئے کہا۔

شہناز کچھ نہ بولی۔

حمید پیر پٹختا ہوا فریدی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

’’فرمائے ۔ ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’واقعی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘ حمید بولا ۔ ’’میں آج سے کان پکڑتا ہوں۔‘‘

’’اپنے یا شہناز کے ۔ فریدی ہنس کر بولا ۔

’’خدارا اس کا نام ذرا آہستہ سے لیجے ۔ اگر سن لیا تو قیامت آجائے گی۔‘‘

’’لا حول ولا قوة تم نے پھر شوہروں جیسی باتیں شروع کر دیں ۔ ارے میاں وہ تمہاری ہے کون ۔ ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ڈر کے مارے جان نکلی جارہی ہے، احمق کہیں کے ۔ ‘‘

حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سنجیدگی سے کسی مسئلے پرغور کر رہا تھا۔

’’حمید‘‘ فریدی تھوڑی دیر چپ رہ کر بولا ۔

’’جی !‘‘فرمائیے۔‘‘

’’کیا واقعی تم اسے بہت چاہتے ہو ۔‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔‘‘

’’تو میں تمہیں ایک نیک مشورہ دیتا ہوں ۔‘‘

’’فرمائے۔‘‘

’’کسی دوسرے کے حق میں دست بردار ہو کر تم فقیری لے لو اور بقیہ عمر خدا کی یاد میں گزار دوں۔‘‘

Leave a Comment