درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’پھر بھی کمسن بچیوں کو اتنے قیمتی زیورات پہنا کو آزاد چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ فریدی نے کہا۔

’’ہے تو حماقت ہی۔‘‘

’’سوتیلی ماں کا برتاؤ اس کے ساتھ کیسا تھا۔‘‘

’’میرے خیال سے نہ انہیں تھا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ بھی اسے بے حد چاہتی تھی۔ ثریا کا بیان ہے کہ وہ اکثر اسے اپنے پلنگ پرہی سلایا کرتی تھی۔‘‘

’’ ہوں۔‘‘

اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ فریدی سگار سلگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اشرف پھر مچھلی پکڑنے کی ڈور کی طرف متواجہ ہوگیا۔

ثر یا اور شیلا مچھلیاں تل چکنے  کے بعد مسلم  سیخ پر  بھوننے ک ےلئے لکڑیاں اکٹھا کردی تھیں۔ حمید شہناز کومنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’ارے بھئی میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ حمید بولا۔

’’ لیکن میں آپ کی قسم کی ضرورت نہیں محسوس کرتی ۔‘‘

’’بھئی میں کس طرح سمجھا وی۔‘‘

’’میں کب کہتی ہوں کہ آپ مجھے سمجھائے ۔‘‘

’’ عجیب آدمی ہو۔‘‘

’’دیکھئے میں خواہ مخواہ کی بات نہیں بڑھانا چاہتی ۔ ‘‘شہنا زتنگ آکر بولی۔

’’تو میں کب چاہتا ہوں۔‘‘

شہناز نے کوئی جواب نہ دیا۔

’’بعض اوقات فریدی صاحب کا مذاق حد سے بڑھ جاتا ہے۔ حمید نے کہا۔

شہناز پھر کچھ نہ بولی۔

خواہ مخواہ ایک بے تکی بات بول کر خود الگ ہو گئے ۔‘‘

’’تو آپ پر کون سی مصیبت ٹوٹ پڑی۔ شہناز بولی۔

 کیا یہ کم مصیبت ہے کہ تم خواہ مخواہ بدگمان ہو گئیں۔‘‘

ہاں صاحب میں تو مصیبت ہی ہوں۔‘‘

Leave a Comment