درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’جی ہاں ابھی حال میں یہاں کا روبار شروع کیا ہے۔ اس علاقے میں بانس بکثرت پیدا ہوتا ہے اس لئے یہاں شہر سے اتنی دور آنا پڑا۔‘‘

’’ بہر حال یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے یہاں بھی مغربی ممالک کے تاجروں کی طرح لوگ ترقی کی دُھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘فریدی نے کہا۔

 پانی پینے کے بعد دونوں اٹھ گئے اور مینجر پھر کام میں مشغول ہو گیا۔

سڑک کے قریب سے گزرتے وقت فریدی نے اس نمبروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا جیسے انہیں وہ  زبانی یاد کر لینا

چاہتا ہو۔

’’کیوں بھئی کیا خیال ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔ دونوں اب سڑک پر پہنچ چکے تھے۔

’’ کوئی سازش کوئی جُرم حمید کچھ سوچتا ہوا بولا

’’یہ تو ظاہری ہے، تم نے کوئی بھی بات نہیں کہی۔ فریدی نے کہا۔’’ بہر حال میں ایک نئی دردسری کے لئے تیار  ہو جانا چاہئے۔‘‘

’’وہ تو ظا ہری ہے۔ حمید نے کہا۔ ’’ بعض اوقات مجھے ہنسی آنے لگتی ہے کیا اس قسم کے سارے واقعات اور حادثات ہماراہی انتظار کیا کرتے ہیں اس ہار کو شاید میر ہی انتظار تھا۔ اس ٹرک ڈرائیور کوسڑک ہی پر نمبر تبدیل کرتا تھا ارے یہی تھا تو اس عمارت کے اندر پہنچ جانے پر یہ حرکت کی ہوتی کیا یہ ضروری تھا کہ فریدی صاحب اسے دیکھ ہی لیں۔‘‘

فریدی ہنسنے  لگا۔

’’ اسی قسم کے اتفاقات مجرموں کی گرفت کا باعث ہوتے ہیں ور نہ سُر اغر ساں کوئی ولی اللہ یا دھرما تھا تو ہوتا نہیں کہ پاتال کی خبریں لے آئے مجرموں کی ذراسی لغزش سُرا غرساں کی کا میابی بن جاتی ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ خیر ذراجلدی قدم بڑھائیے بھوک کے مارے برا حال ہو رہا ہے۔ ‘‘حمید بولا۔

شہناز اسٹو و پر مچھلی کےقتلے تل رہی تھی۔ اشرف نے دوبارہ مچھلیاں پکڑنے کے لئے کالے کانٹے تالاب میں پھینک دیئے تھے اور ایک ڈور ہاتھ میں لئے بیٹھااونگھ رہاتھا۔ شیلا اور ثریا گھاس پر کہینوں کے بل لیٹی ہوئی انگریزی کے ایک رسالے میں تصویریں دیکھ رہی تھیں۔

’’اس وقت شہناز کتنی اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’ مچھلیاں مل رہی ہے نا‘‘ ۔ فریدی ہنس کر بولا ۔’’ پیٹو قسم کے عاشق اپنی محبوباؤں کو کھانا پکاتے دیکھ کر کافی محفوظ ہوتے ہیں۔‘‘

’’بہر حال  خُدانے آپ کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ ‘‘حمید جھینپی ہوئی ہنسی کے ساتھ بولا۔

’’خدا ہر شریف آدمی کو اس نعمت سے محروم رکھے۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’انگور کھٹےہیں۔‘‘

Leave a Comment