پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

            ’’کیا مطلب ‘‘۔حمید نے تحیر کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھلا وہ تین سو سال سے اب تک زندہ کیسے ہے؟‘‘۔

’’ اس کے لئے انہوں نے ایک خوف ناک طریقہ اختیار کیا ہے ۔ فریدی کچھ سوچتا ہو بولا ۔ ’’اس ملکہ کے لئے وہ کسی نو جوان گوری نسل کے مرد کو پکڑ لاتے ہیں ملکہ کے ساتھ اس کی شادی کر دی جاتی ہے اگر اس کے مرنے سے پہلے ملکہ مرگئی تو وہ اسے بھی قتل کر کے ملکہ کے ساتھ ہی دفن کر دیتے ہیں۔ ملکہ کی ایک لڑکی جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے اس کی جگہ ملکہ بنادی جاتی ہے اور اس کی بقیہ اولادیں دیوتا پرقربان کردی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ اس ملکہ کی سفید نسل کو برقرار رکھتے ہیں ‘‘۔

’’واقعی بہت وحشیانہ طریقہ ہے‘‘ ۔ حمید نے کہا۔

’’ آج کی مہذب دنیا اس وحشی قوم کا وجود کس طرح برداشت کر رہی ہے ؟ ‘‘

’’مجبوری ہے !‘‘ فریدی بولا۔’’ وہاں تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ انگریزوں نے سفید نسل کے ان مظلوموں کو بچائے کے لئے کافی جدو جہد کی ہے۔ لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

’’لیکن یہ راز دنیا کو کس طرح معلوم ہوا‘‘۔

’’ اس سیاح کے ذریعہ جس نے اس قوم کے حالات لکھے ہیں ۔ فریدی نے کہا۔

’’ اسے وحشیوں نے پکڑ لیا تھا اور اس کی شادی ملکہ وقت کے ساتھ کر دی تھی لیکن جب اسے اپنے انجام کے متعلق معلوم ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔

حمید کسی سوچ میں ڈوب گیا۔

’’لیکن آخر رام گڑھ جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘حمید نے پو چھا۔

’’ اس مورتی کو دیکھنے کے لئے جس کے لئے عرصہ دراز سے لوگ جدو جہد کرتے چلے آئے ہیں ‘‘۔

’’تو کیا آپ کواس کی امید ہے کہ آپ اسے دیکھ سکیں گئے۔

 ’’ کیوں نہیں ۔‘‘

’’جس چیز کے لئے وہ لوگ اپنی جانوں پر کھلتے چلے آئے ہیں کیا اسے انہوں نے پولیس کے قبضے میں رہنے دیا ۔

 خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ پولیس اس کے متعلق خاص علم نہ رکھتی ہو۔ اس نے اسے احتیاط سے بھی نہ رکھا ہوگا‘‘۔

میں جانتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔ وہ یقینا پولیس کے قبضے سے نکل گئی ہوگی‘‘۔

’’پھر حمید نے فریدی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’ لیکن میں اس مورتی کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں لوگوں کی دلچسپیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے؟‘‘۔

 ارے چھوڑیے بھی ہو گا کچھ خزانے وزانے کا چکر میں نے اس قسم کے بہتیرے ناول پڑھے ہیں۔ وہ مورتی یقینًا کسی زمین دوز خزانے کا حال بتاتی ہوگی‘‘۔

’’ہوسکتا ہے ۔ فریدی نے کہا۔‘‘ لیکن یہ تو سوچو۔ اس میں لطف کرنا آئے گا‘‘۔

’’لطف کیا آئے گا ۔ حمید نے کہا۔ ’’اگر آپ نے ان لوگوں کا سراغ لگا بھی لیا۔ جو اس کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں تو اس سے فائدہ ظاہر ہے کہ وہ لوگ اس جدوجہد کا مقصد کسی طرح بھی ظاہر نہ ہونے دیں گے‘‘۔

            ’’خیر چھوڑو ان باتوں کو ‘‘۔ فریدی نے کہا۔ ’’ تین ماہ کی چھٹی میں نے محض تفریح کی خاطر لی ہے اور رام گڑھ ایک بہترین تفریح گاہ بھی ہے ‘‘۔

Leave a Comment