حمید کوبھی حیرت ہورہی تھی کہ آخر یہ رائفل کہاں سےٹپک پڑی۔ رائفل کوئی بالشت بھر کی چیز تو نہیں ہوتی کہ فریدی نے اسے اپنے گھیر دارا کی شلوار کےنیفے میں اڑس لیا ہو۔
’’نہیں سر جارج میں قطعی صحیح الدماغ ہوں ‘‘۔ فریدی نے کہا اور اپنے بانس کے موٹے ڈنڈے کو بیچ سے پھاڑ دیا۔
را ئفل کی ایک پتلی سی نال ڈنڈےکے اندر سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔
حمید نے قہقہ لگایا، جولیا اور سر جارج حیرت سے فریدی کی صورت دیکھ رہے تھے۔
اب فریدی نے تمباکو کا بنڈل کھوانا شروع کیا۔ اس میں سے رائفل کا کندہ اور بے شمار کارتوسوں کا پیکٹ برآمد ہوا۔
اس نے دیکھتے ہی دیکھتے رائفل فٹ کر لی۔
’’دیکھو سر جارج یہ ایک انتہائی طاقتوار اور بے آواز رائفل ہے اس سے میں ایک ہاتھی کا بھیجا آسانی سے پھاڑسکتا ہوں‘‘۔ فریدی نے رائفل جارج کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔
’’آدمی ہو یا بھوت ‘‘جارج ہنس کر بولا ۔’’ میں نے تم جیسا د لیر اور عقلمند آدمی آج تک نہیں دیکھا۔
گرفتار ہونے کے بعد پہلی بار سر جارج کے ہونٹوں پر ہنسی آئی تھی۔
’’ کیا تم سچ مچ وہی ہو جس نے اپنے نشانہ سے آرتھر کا پستول اڑادیا تھا۔ جولیا بے ساختہ بولی۔
’’ جی ہاں یہ وہی ہے حمید نے بے دلی سے کہا۔ ’’آخر مجھ سے بھی تو کچھ پوچھو ‘‘۔ حمید نے اس طرح کہا کہ جو لیا بے ساختہ ہنس پڑی ۔
’’اچھا تم ہی بتاؤ‘‘۔
’’میں سرجنٹ حمید ہوں….اور…‘‘
’’ہاں!‘‘ جارج بولا۔ وہ اس مورتی کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے انہیں کی زندگی میں اس کی کافی شہرت ہو گئی تھی اور انہیں کی زندگی میں یہ ایک بار چرائی بھی گئی تھی ۔ متعدد بار یہ میرے قبضے سے بھی نکل چکی ہے۔ کئی بار لوگوں نے اس کا معمہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ خود میں بھی برسوں اسے حل کرنے میں پریشان رہا اور آخر کار مجھے سر ہنری کی ایک تحریر سے مدد ملی‘‘۔
’’ٹھہرئیے‘‘۔ فریدی بولا۔ ’’ اب مجھے کہنے دیجئے۔ دیکھئے میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔
’’ ہاں ہاں کہو ۔ سر جارج مسکر ابولا۔