’’ میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتا ۔ فریدی نے کہا۔ ’’جلدی کیجئے میں اس سے نپٹتاہوں‘‘۔
آرتھر نے جلدی سے جارج فنلےکو سب کچھ بتا دیا اور پھر سردار کی طرف کی طلب ہوا۔ جو لیا اس دوران میں بے ہوش ہوگئی تھی جسے شیر کی کھال والے نے اپنے کاندھے پر ڈال لیا تھا۔ آرتھر سردار سے گفتگو کرنے کے بعد خیمے کی طرف چلا گیا۔ سردار نے ایک نیزہ اور ڈھال فریدی کے سامنے ڈال دی۔
شیر کی کھال والے نے جولیا کو کاندھے سے اتار کر اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیا۔
چند لمحوں کے بعد فریدی اور وہ ایک دوسرے کے سامنے نیزہ تانے کھڑے تھے اور حمید بری طرح کانپ رہا تھا۔ فریدی بھو کے شیر کی طرح اپنے مقابل کو گھور رہاتھا۔
جنگلی نے نیز ہ مارا۔ فریدی نے ڈھال سامنے کر دی اور پیشتر بدال کر جنگی پر حملہ آور ہوا لیکن اس نے بڑی پھرتی سے وار خالی کر دیا۔
نیزوں کی انیاں ڈھالوں سے ٹکڑ اٹکڑا کر چھنا کے پیدا کر رہی تھیں ۔ پندرہ بسیں منٹ گزر گئے ۔ لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ آرتھر واپس آگیا۔
جو لیا بھی ہوش میں آگئی تھی۔ جنگلی کے حملوں کی رفتار ست ہوتی جارہی تھی۔ اس کے نوجوان ساتھی چیخ چیخ کر شاید اسے ہمت دلا رہے تھے ۔
جنگلیوں کا سردار بڑی تو جہ اور دلچسپی سے اس جنگ کو دیکھ رہا تھا۔
جیسے جیسے شیر کی کھال والے کی سستی بڑھتی جارہی تھی سردار کے چہرے پر تازگی کے آثار گھیرے ہوتے جارہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے، وفریدی کی کامیابی کا متمنی ہو۔
شیر کی کھال والے نے جھلا کر اپنا نیز و فریدی کو دے مارا۔ فریدی پھرتی سے بیٹھ گیا اور نیز و سننا تا ہوا اس پر سے نکل گیا۔
اچانک ایک چیخ سنائی دی۔ نیزہ دوسری طرف کھڑے ہوئے ایک جنگلی کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ فریدی بھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ شیر کی کھال ولا اچھل کر اس پر
آرہا لیکن دوسرے بھی لمحے میں اس کے منہ سے بھی ایک چیخ نکلی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔
فریدی نے اپنا نیزہ اٹھا لیا تھا۔ جنگی اپنے ہی دور میں اٹھے ہوئے نیزے کا شکار ہو گیا۔ جنگی جوان کے ساتھیوں نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس پر سردار خود نیز لے کر میدان میں کود پڑا۔
جنگی سہم کر پیچھے ہٹ گئے کیونکہ ان کا ساتھی مارا جا چکا تھا۔ جارج فنلے کے مزدوروں نے گا پھاڑ پھاڑ کر چیخناشروع کر دیا۔ وہ سب فریدی کو گود میں اٹھائے سارے میدان میں دوڑتے پھر رہے تھے۔
اسی رات کو جولیا آرتھر ، جارج اور فریدی خیمےمیں بیٹھے ہوئے آج کے واقعات پر تبصرہ کر رہے تھے۔
واقعی تم بہت کام کے آدمی نکلے۔ آرتھر نے فریدی سے کہا صاحب اور میم صاحب دونوں تم سے بہت خوش ہیں۔ بولو کیا انعام چاہتے ہو ؟‘‘
’’گرما گرم چائے کا صرف ایک کپ کیونکہ میں سرشام سے محنت کر رہا ہوں‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔
دوسرے دن صبح خیمے اُکھاڑ دئے گئے۔اس وقت کارواں جنگلیوں کی دورو یہ قطاروں کے درمیان سے گزررہاتھا۔
ان کی انکھوں میں نفرت تھی اگر ان کا بس چلتاتو وہ اس قافلے کے ایک خچر تک زندہ نہ چھوڑتے جنگلیوں کا سردار قافلے کے آگے چل رہا تھا۔وہ اور اس کے کچھ ساتھی قافلے کواگلی چڑھائی تک چھوڑ کر وپس چلے گئے۔
پہاڑیوں سے جنگلوں کے کچھ کچھ آثار شروع ہو گئے تھے۔
تاز ودم پہاڑی مزدوروں نے ایک گیت شروع کر دیا۔ ان کی تیز آوازیں چٹانوں سے ٹکرا کر ایک عجیب طرح کی گونج پیدا کر رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہورہاتھا۔ جیسے ذہن کی لامحدود وسعتوں میں چندر رنگین یادیں رینگ رہی ہوں۔
حمید کی نگاہیں جو لیا کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔ جواب ایک خوفزدہ ہرنی کی طرح کبھی کبھی پلٹ کر پیچھے دیکھنے لگتی تھی۔ حمید کے ذہن میں فریدی جاگ اٹھادہ سوچنے لگا کہ کاش فریدی نے اپنا یہ کارنامہ اپنی صہیح شکل وصورت میں انجام دیا ہوتا۔