پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’واقعی تم  کافی طاقت ور ہو۔ آرتھر نے تحسین آمیز لہجے میں کہا۔ اچھا یہ لواپنے چاول اور اب تو خوش ہو۔

’’خدا صاحب کا بھلا کرے۔

’’گونگا تمہارا لڑکا ہے‘‘آرتھر نے پو چھا۔

’’میر بھائی ہے صاحب‘‘۔

’’اس کا چاول اسے دیا جائے گا‘‘۔

’’ہاں صاحب‘‘۔

ارتھر آگے بڑھ گیا۔

’’حمید لکڑ ہاں سلگارہا تھا۔ آگ پھونکتے پھونکتے اس کے آنسو بہہ چلےتھے۔ آگ تھی کہ جلنے کانام نہ لیتی تھی۔ فریدی مسکراتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔

’’کیوں میاں حمید خیریت تو ہے ۔ فریدی اس کے پاس بیٹھ کر آہستہ سے بولا۔

’’دیکھئے آپ خواہ مخواہ مجھے تاؤنہ دلائیے۔حمید نے جواب دیا۔

’’یار تم بہت کمزور دل کے آدمی ہو۔

’’اب اس سفر میں میر از ندہ رہنامحال ہے ‘‘۔ حمید بولا۔

’’کیوں‘‘۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ حمید نے بے بسی سے کہا ‘‘ کہاں ہماری زندگی اور کہاں یہ پھتر یلی چٹانیں میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے چائے نصیب نہ ہوئی تو میر امر جانا یقینی ہے۔ درد سے سر پھٹا جارہا ہے‘‘۔

’’گھبراتے کیوں ہو پیارے بہت جلد تمہاری چائے کا بھی انتظام ہو جائے گا ۔ فریدی نے کہا۔ بہت جلد یہ لوگ مجھ میں رچی لینے پر مجبور ہو جائیں گئے۔

’’بسں بیٹھے ہوائی قلعے بنایا کیجئے ۔ حمید جل کر بولا۔

’’سن رہے ہو۔ بخدا جولیا کی آواز میں بڑی مٹھا س ہے ۔ فریدی نے مُسکر اکر کہا۔

’’ہو گی سالی‘‘ – حمید جھنجلا کر بولا۔

’’تمہاری جمالیاتی حِس کہاں مرگئی حمید؟‘‘

’’دکھئے میں اس وقت باتیں کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں‘‘۔

’’خیر خدا کا شکر ہے کہ میں نے زندگی میں ایک بار تمہارے منہ سے یہ جملہ سن لیا ‘‘۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔

خدا تمہاری قینچی کی طرح چلنے والی زبان کی مغفرت کرے آمین‘‘۔

Leave a Comment