’’ یا رب العالمین۔ حمید آہستہ آہستہ بڑ بڑیا۔’’ اس گنہگار کو ہر قسم کے آفات سے محفوظ رکھیں۔
’’ حمید!‘‘ فریدی نے کہا ’’ کیا تمہیں یاد ہے۔ براؤن نے ایک مورتی کا تذکرہ کیا تھا‘‘۔
’’کون براؤن‘‘۔
’’وہی جو پچھلے سال اسکاٹ لینڈ سے یہاں آیا تھا‘‘۔
’’اوہ….. وہ سرا فرساں چیف انسپکٹر براؤن ‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’ لیکن میرے سامنے کسی مورتی کا تذکر ہ نہیں آیا تھا‘‘۔
’’ اس نے ایک عجیب وغریب پل کی مورتی کا تذکرہ کیا تھا جس کی وجہ سے لندن میں کافی ہیجان بر پا ہو گیا تھا‘‘۔
’’ہیجان!‘‘ حمید نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’مورتی کی وجہ سے‘‘۔
’’ وہ مورتی لندن کے باہر آثار قدیمہ جارج مسلے کی ملکیت تھی۔ اسے کسی نے چرالیا اور پھر عجیب و غریب وارداتوں کے سلسلے شروع ہو گئے‘‘۔
’’بھلا یہ کیونکر معلوم ہوا کہ دو و اردا تیں اسی مورتی کی وجہ سے ہوئی تھیں ‘‘۔ حمید نے کہا ۔
’’اس لئے کہ ایک باروہ مورتی ایک قتل کے سلسلے میں پولیس کے قبضہ میں آگئی تھی۔ لیکن کسی نے اسے اسکاٹ لینڈیارڈ سے پھر اڑالیا۔
’’واقعی عجیب بات ہے ‘‘۔ حمید نے کہا۔’’اسکاٹ لینڈ یارڈ میں چوری کرنا آسان کام نہیں۔
’’اس مورتی کے ماتھے پر بھی ایک سینگ ہے‘‘۔ فریدی نے اخبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ” براؤن نے جس مورتی کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے ماتھے پر بھی ایک سینگ تھا۔
’’لیکن وہ ہے کیا بلا۔ اسکے لئے قتل کیوں ہوئے۔ جارج فنلے نے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا لیکن براؤن کا خیال ہے کہ اس نے دیدہ دانستہ اس کے راز کو چھپانے کی کوشش کی تھی‘‘۔
’’اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘حمید نے پو چھا۔
’’میں خواہ مخواہ قیاس آرائی کرنے کا قائل نہیں۔
’’خیر ہوگا ‘‘۔ حمید نے لا پروائی سے کہا اور اخبار اٹھا کر پڑھنے لگا۔
فریدی اور حمید آج کل تین ماہ کی چھٹی پر تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ گرمیاں شملہ میں بسر کریں۔ قریباً سارےانتظامات مکمل ہو چکے تھے۔ وہ شاید آج ہی شملہ کے لئے روانہ ہو جاتے لیکن اس درزی کی علالت کی وجہ سے جوان کےکپڑے سی رہا تھا۔ انہیں دو ایک دن کے لئے توقف کرنا پڑا۔
’’حمید !‘‘فریدی کہتے کہتے اچانک رک کر بولا۔