پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’جی‘‘

’’ ہم لوگ شملہ نہیں جائیں گئے‘‘۔

’’کیوں؟ ‘‘حمید نے متعجبانہ انداز میں پوچھا۔

’’ہمیں آج ہی رات کی گاڑی سے رام گڑھ چلنا ہے‘‘۔

’’ آخر کیوں ؟‘‘

’’ضروری کپڑے تو ہمارے پاس کافی سے زیادہ ہیں۔ ہم درزی کی صحت یابی کا انتظار نہ کریں گئے ‘‘۔

’’وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اس کی وجہ ‘‘۔

’’پتیل کی مورتی‘‘ ۔

’’لا حول ولاقوۃ ‘‘۔ حمید بولا ۔ ’’ کیا آپ اسے  تبّتی کے جرم میں گرفتار کر لیں گئے‘‘۔

’’حمید زیادہ بکو اس اچھی نہیں ہوتی ‘‘۔

’’میں ہرگز ہرگز رام گڑھ نہ جاؤں گا ‘‘۔حمید جھنجھلا کر بولا۔

’’ تمہیں چلنا پڑے گا ۔ فریدی اس کی طرف مڑ کر بولا۔

’’قیامت تک نہیں جاؤں گا ۔ حمید نے کہا۔ ’’واہ یہ بھی اچھی رہی یہ ہزار دقت تو چھٹی ملی ہے ….نہیں نہیں ….مجھ میں اب اتنی سکت نہیں رہ گئی کہ خواہ مخواہ آپ کے ساتھ دوڑتا پھروں‘‘۔

’’ کاہل ….کام چور!‘‘

’مجھے قطعی چوٹ نہیں گئی ‘‘۔ حمید نے کہا۔’’ میں سو بار کاہل ہزار بار کام چور پھر ‘‘۔

’’تمہارا سر‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔

’’مجھے اس سے بھی انکار نہیں ۔ حمید بولا۔

’’دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں چلتے ۔ فریدی نے کہا۔

’’میں آج رات کی گاڑی سے گھر چلا جاؤں گا‘‘ حمید نے جھنجھلا کر کہا۔

’’جہنم میں جاؤ ۔ فریدی نے کہا اور لائبریری میں چلا گیا اس کے چہرے سے معلوم ہور ہا تھا جیسے وہ کسی شدید الجھن میں مبتلا  ہے۔

ایک گھنٹے کے اندر اندر اس نے میز پر کتابوں کا اچھا خاصا ڈھیرلگا لیا۔

 یہ کتا میں ایشیائی فن بت تراشی سے متعلق تھیں۔ تھوڑی دیر بعد حمید بھی تنہائی سے اکتا کر لائبریری ہی میں چلا آیا۔ فریدی کو کتابوں میں ڈوبا ہوا دیکھ کر اسے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ فریدی نے اسے گھور کر دیکھا۔

Leave a Comment