’’حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے فریدی کے اور اپنے چاول ایک بڑے سے تسلے میں ڈال کر آگ پر چڑ ھادیے تھے۔
’’یار اس طرح ہمت نہ ہارو۔ دیکھو بہت جلد ہم لوگ اس پارٹی میں کوئی نمایاں جگہ حاصل کر لیں گئے۔
اتنی نمایاں کہ شاید انہیں ہم کو اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے۔
پھر وہی عورتوں کی سی باتیں۔
’’ابھی ان دونوں میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک قوی ہیکل مزدور ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔’’ ستا ہے، بڑے طاقتور ہوا ۔ وہ فریدی کی طرف دیکھ کر مشتر یہ انداز میں بولا ۔
جا بھائی جا اپنا کام کر مجھے چاول ابالنے ہیں ۔ فریدی لا پروائی سے بولا۔
’’مجھ سے بھی لڑوگے‘‘۔پہاڑی خودور اکڑ کر بولا۔
’’نہیں بھائی میں بہت کمزور ہوں جامیر اد ماغ نہ چاٹ ۔ فریدی نے کہا۔ اور جلتی ہوئی کنکریوں کو ہلائے جلانے لگا۔
’’لے یار تو تو بڑا بودانکلا‘‘۔ پہاڑی ہنس کر بولا۔
’’آخر تو چاہتا کیا ہے؟‘‘ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’کشتی!‘‘
’’اچھا چل پہلے صاحب سے پوچھ لیں لیکن پھر تجھے لڑنا ہی پڑے گا‘‘۔ فریدی نے کہا۔
دونوں آرتھر کےخیمے کے سامنے آئے خیمےمیں جولیا ۔ آرتھر اور جارج ملے میٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’ کیا ہے؟ ‘‘آرتھر فریدی کوخیمے کے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا۔
’’ صاحب میں اجازت لینے آیا ہوں‘‘۔
’’کس بات کی‘‘۔
’’یہ مجھ سے کشتی لڑناچاہتا ہے ۔ فریدی نے مزدور کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
آرتھر ہنسنےلگا پھر اس نے جارج فنلے کو فریدی کی شیخیوں کے متعلق بتا نا شروع کیا۔
’’ لیکن بہت گندا آدمی ہے‘‘۔ جو لیا ہونٹ سکوڑ کر بولی۔ ’’ دیکھو ر ال کسی برُی طرح بہہ رہی ہے۔ لیکن میں ان کی لڑائی دیکھنا چاہتی ہوں۔
آرتھر نے انہیں اجازت دے دی۔ جو لیا اور جارج فنلے بھی خیمے سے باہر نکل آئے ۔ فریدی اور مزدور ایک دوسرے پرپل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد مزدور ہانپنے لگا۔
’’دیکھو بیٹا۔ فریدی نے کہا۔ تو ابھی تک مجھے نہیں اکھاڑ پایا ہے اب سنھبل میں تجھے اکھاڑتا ہوں۔ فریدی نے کہا۔ فریدی نے زور کر کے اٹھایا اور اپنے سر سے بلند کر کے بولا ’’ بول کدھر پھینکوں لیکن پھر آہستہ سے سامنے زمین پر کھڑا کر دیا۔
’’جا بھاگ جا ۔جا کر اپنے چاول ابال بڑے بوڑھوں کے منہ نہیں لگا کرتے شابش ‘‘فریدی نے کہا۔