خیمے نصب ہو چکے تھے۔ جارج فنلےوغیر و آرام کرنے لگے۔ مزدوروں نے کھانا پکانا شروع کر دیا۔ جنگلیوں کے ننگ دھڑ نگ بچے کھانے کے لالچ میں مزدوروں کے گرد اکٹھا ہو گئے آرتھر سردار کے جھونپڑے میں چلا گیا۔ کثیف اور میلی عورتیں
پہاڑی مزدوروں کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ فریدی اور حمید ایک جگہ بیٹھے اپنے چاول ابال رہے تھے۔ فریدی آرتھر سے خشک ڈبل روٹیاں مانگ لایا تھا جنہیں ایک بڑے سے تسلے میں بھگوئے ہوئے تھا۔
حمید جنگی عورتوں میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہاتھا۔ ان میں کئی جوان تھیں جنہیں قید اپنے تصور میں نہلا دھلاگر جدید طرز کے کپڑے پہنا رہا تھا۔
’’اس لڑکی کو دیکھ رہے ہیں آپ حمید نے آہستہ سے کہا۔
شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ڈھول پیٹےجانے لگے اور پھر قبیلے کی جوان لڑکیاں دائر ہ بنا کر ڈھول کی آواز پر ناچنے لگیں۔ جنگلی چیخ چیخ کر گارہے تھے۔ سردار کے قریب ہی شیر کی کھال والا جو ان بیٹھا اپنے بازوؤں کی مچھلیاں اکٹراا کڑا کر دیکھ رہا تھا۔ اکثر وہ جولیا کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ لیتا تھا۔ جولیا بری طرح لرز رہی تھی۔
وہ جانے کے لئے اٹھی۔ شیر کی کھال والے نے چیخ سن کر کچھ کیا۔ اس کی آواز سنتے ہی کئی جو ان ناچتی ہوئی لڑکیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے ان کو پکڑ کر اچھلنا کودنا شروع کردیا۔ جو لیا جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ شیر کی کھال والے نے اسے پکڑ لیا اور کھینچ کرنا چنے والوں کی بھیٹر میں لے آیا۔ جولیا کی چیخیں نکل گئیں ۔ آرتھر اور جارج فنلے اسے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے لیکن ان کے سینوں کے سامنے کئی جنگلی نیزے لے کر آ گئے ۔
سردار چیخنےلگا۔ شاید وہ اس حرکت پر اپنی نارضگی کا اظہار کر رہا تھا۔ شیر کی کھال والے نے سردار پر اپنا نیزہ تان لیا۔
دونوں میں بہت ہی تیز قسم کی گفتگو ہورہی تھی۔ ادھر جارج فنلے آرتھر کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔
دفتًا فریدی بھیٹر کو چیرتا ہوا آرتھر کے قریب پہنچا۔ آرتھر بری طرح گھیر لیا ہوا تھا۔
’’کیوں صاحب کیا معاملہ ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’تم ٹھیک کہتے تھے ۔ ہمیں دھوکا دیا گیا۔ اس شیطان نے اس لئے ہمارا اسلحہ لے لینے کی تحریک شروع کی تھی۔ اور سردار کیا کہتا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’وہ بے چارہ بے قصور ہے۔ اس وقت پورا قبیلہ اس شیطان کا طرفدار ہو گیا ہے‘‘۔
’’سردار انتہائی کوشش کر رہا ہے کہ وہ جولیا کو چھوڑ دے لیکن وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔
’’وہ آخر کہتا کیا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھارہا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم لوگ نیزوں اور تلواروں سے نہیں لڑ سکتے اس لئے وہ کہتا ہے کہ جو لیا اس وقت واپس ہوسکتی ہے جب وہ مار ڈالا جائے ۔ کاش ہمارے پاس رائفلیں ہوتیں۔
’’تو کیا وہ ہم میں سے ایک سے لڑنا چاہتا ہے یا سب کو انکا رہا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔
’’سردار سے پوچھئے ۔ فریدی نے کہا۔ اگر وہ تنہا لڑ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو تو میں تیار ہوں‘‘۔
آرتھر سردار سے گفتگو کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہ و فریدی کی طرف مڑ کر بولا۔
’’وہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی میں جو لیا نہیں واپس ہوسکتی چاہے مجموعی حیثیت سے‘‘۔
’’اچھا اس سے کہہ دیجئے کہ ہمارا ایک آدمی اس سے لڑے گا اور ہاں آپ اپنے خیمےمیں جائیے ۔ آپ کا سارا اسلحہ وہاں موجود ہے اگر ہماری لڑائی کے دوران میں کوئی دوسرا دخل دے تو آپ بے دریغ فائر کرنا شروع کر دیئے گا۔ آرتھرحیرت سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔