پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

فریدی ہنس کر بولا۔ ’’ کیوں اپنا دل چھوٹا کرتے ہو۔ تمہارا مصرف تو کوئی مجھ سے پوچھے‘‘۔ جی ہاں جہاں چاہا اٹھا کر پھینک دیا۔ حمید توالو کا پٹھاہے۔ خیر یہ تمہاری لیاقت ہے کہ اپنے منہ میاں الو بن رہے ہو ۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

حمید خاموش ہو گیا۔ فریدی نے سراٹھا کر سامنے دیکھا کاروان دور نکل گیا تھا۔ پہاڑی مزدور شاید گانے گاتے تھک گئے تھے۔ فریدی تیزی سے قدم اٹھانے لگا۔

’’ آخر آپ پیدل کیوں چل رہے ہیں ۔ حمید نے پوچھا۔

’’بارہ بجے کے بعد میں خچر پر بیٹھوں گا ۔ فریدی نے کہا۔

’’کیوں۔

’’اس لئے کہ سب لوگ اس وقت خچروں پر بیٹھے بیٹھے اکتا جائیں گے اور انہیں بھی اترنا پڑے گا لیکن پھر ان سے پیدل بھی نہ چلا جائے گا۔ میں دن کے بہترین حصے میں پیدل چل کر اپنی تھکن کا بوجھ خچر پر ڈال دوں گا اور پھر جب شام کواتروں گا تو بالکل تازہ دم ہوں گا‘‘۔

حمید نے اپنے خچر کے رسید کی اور قافلے میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔ فریدی بدستور پیدل چل رہا تھا۔ آفتاب آہستہ آہستہ بلند ہوتا جارہا تھا۔ دھوپ میں کافی حرارت پیدا ہوگئی تھی۔ آرتھر اور جارج وغیرہ نے اپنے کوٹ اتار دیئے تھے۔ وہ سب پسینے میں ترتھے۔ جو لیا کے شفاف چہرے پر پسینے کی بوند میں ایسی معلوم ہورہی تھیں جیسے کسی تالاب میں کھلے ہوئے کنول کی پنکھڑیوں پر شبنم کے قطرے بکھر گئے ہوں دو ایک ہلکی ہلکی لٹیں بھیگ کر ماتھے پر چپک گئی تھیں۔ تھکاوٹ نے اس کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی رعنائی پیدا کر دی تھی۔ حمید اس کے قریب جمالیاتی حس کی تسکین کرنےلگااوہ در اصل اس کے سہارے سفر کی تکالیف کو بھلا دینا چاہتا تھا۔

قافلہ دن بھر چلتارہا۔ اس دوران میں فریدی نے ایک بار بھی قافلے سے ملنے کی کوشش نہ کی۔ وہ بدستور پیچھے ہی پیچھے چلتا رہا۔ کئی بار آرتھر نے اسے ٹو کا بھی لیکن اس نے اس کی پرواہ نہ کی۔ در اصل وہ ان جنگلیوں کی طرف سے مطمئن نہ تھا جن کی آنکھوں میں اس نے نفرت اور انتظام کی چنگاریاں دیکھی تھیں۔

اس پر آرتھر  طنزیہ انداز میں ہنس پڑا۔

’’نقشے پر بھروسہ مت کروجارج‘‘۔ آرتھر اپنے مخصوص طنز یہ لہجے میں بولا‘‘۔ ان راہوں میں اچھے اچھےبھٹک جاتے ہیں‘‘۔

’’پرو ہ مت کرو‘‘۔ جارج لا پروائی سے بولا۔

’ ’ میں کہتی ہوں ۔ آخر جھگڑے سے کیا فائدہ‘‘۔ جولیا گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولی۔

’’یہ اپنے باپ ہی سے پوچھو‘‘ ۔ آرتھر نے شانے ہلا کر کہا۔

’’پاپا‘‘ جولیا بولی۔

’’تم آخر پریشان کیوں ہوتی ہو ‘‘۔ جارج بولا۔ آرتھر کو شاید یہ غلط  نہیں ہوئی ہے کہ میں اس کے بغیر آگے نہ بڑھ سکوں گا۔

Leave a Comment