فریدی کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ لاطینی زبان جانتی ہے فریدی نے سوچا کہ اب بولناہی چاہئے ورنہ مفت میں جان جائے گی ۔ لاطینی فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں وہ اچھا خاصہ دخل رکھتا تھا۔
’’ا ے دنیا کی طاقت ور ترین ملکہ‘‘۔ فریدی نے قدرے جھک کر سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے لاطینی زبان میں کہا کیا مہمانوں کے ساتھ یہی برتاؤ کیا جاتا ہے؟‘‘
آرتھر، جولیا اور جارج فنلے بیک وقت چونک پڑے ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’ اے سیاہ فام اجنبی‘‘ ۔ ملکہ بولی ہمیں افسوس ہے کہ ہمارا شوہر…………. سلاشیہ کا بیٹا ہم سے تمہیں پہلے ہی مانگ چکا ہے۔
’خیر اگرسی ۔ جی۔ لادیو تا کی بیٹی چاہتی ہے کہ ہم اس پر قربان ہو جائیں تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں تم سے وعدہ کر چکی ہوں۔ پورا کروں گی‘‘۔ ملکہ نے مسکرا کر کہا۔ پھر اس نے مسلح وحشیوں سے کچھ کہا اور آرتھر سے لاطینی زبان میں بولی۔
’’یہ ہمارے دیوتا میمون اعظم کی بھینٹ ہیں۔
آرتھر نے قہقہ لگایا۔
’’لوسنو سر جارج ! تم ان لوگوں کے دیو تابن مانس کی نذر کئے جاؤ گے۔ تم نے اتنا خوفناک گوریلا کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ وہ تم لوگوں کی ہڈیوں کے جوڑ جوڑ الگ کر دے گا۔ وہ دریا کے ایک چھوٹے سے جزیرے میں رہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اب میں یہاں کے خزانے کا تنہا مالک ہوں‘‘۔
جارج نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’اتنے بے درد نہ بنو۔ جولیا بولی۔
’’تمہارے باپ نے مجھے اس پر مجبور کیا ہے اگروہ مجھ پر اعتبار کر کے خزانے کا راز بتا دیتا تو اس کی نوبت نہ آتی‘‘۔
جولیا لاکھ لاکھ روئی اور گڑگڑائی لیکن آرتھر پر کچھ اثر نہ ہوا ملکہ نے سپاہیوں کو اشارہ کیا ۔ ان لوگوں کی ایک بار پھر تلاشی
کی گئی۔
دریا میں ایک بڑی سی کشتی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ ان سے سب کچھ چھین لیا گیا۔
فالتو چیزوں میں فریدی کی تمبا کو کا بنڈل بھی بچ گیا تھا۔
’’اف میرے خدا ‘‘۔ جارج کشتی پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔’’ اب….سچ مچ ہماری موت ہی آگئی ہے‘‘۔
’’ آپ آخر اتنے مایوس کیوں ہو گئے ہیں‘‘۔ جولیا بولی۔
’’سر ہنری نے اپنے سفر نامےمیں اس گوریلے کے متعلق بھی لکھا ہے ‘‘۔ جارج بولا ۔
’’وہ انتہائی خوفناک اور خونخوار ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہیں جس سے اپنی حفاظت کر سکیں گے‘‘۔