’’آگے کیا تم آگے سے بھی بڑھ سکو گے…. مگر …؟‘‘
’’ مجھے جو کچھ کہنا تھا کہ چکا‘‘۔ جارج آرتھر کی بات کاٹ کر بولا ۔ ’’ اگر مجھے پر اعتماد کر سکتے ہو تو کرو ورنہ میں تمہاری واپسی کا انتظام کر سکتا ہوں‘‘۔
’’ جی شکریہ …مجھے کسی انتظام کی ضرورت نہیں۔ میں واپس چلا جاؤں گا‘‘۔ آرتھر نے کہا اور خیمے سے نکل گیا۔ فریدی آگے بڑھ گیا۔
’’چائے ؟ ‘‘آرتھر نے سوالیہ انداز میں پو چھا تمہیں اب یہاں سے چائے نہیں ملے گی۔
’’ کیوں صاحب ‘‘
’’یہ دونوں بہت بد دماغ ہیں۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ کوئی گندا پیاڑی ان کے خیمے کے قریب نہ آنے پائے‘‘۔
آرتھر نے کہا۔
فریدی اس کی چالبازی پر دل ہی دل میں ہنس پڑا۔
’’ اچھا صاحب۔ اس نے مردہ آواز میں کہا۔
’’لیکن میں تمہیں چائے کا سامان دوں گا ۔‘‘ آرتھر نے کہا۔ چلو میرے خیمے میں۔ میں بہادروں کا قدردان ہوں‘‘۔
آرتھر اپنے خیمےمیں داخل ہوتے ہوئے فریدی کی طرف مڑا۔
’’کیا تم جانتے ہو کہ تم لوگ کہاں جارہے ہو ۔ اس نے فریدی سے پو چھا۔
’’نہیں صاحب ‘‘
’’پھر تم کیوں چل پڑے تھے۔ آرتھر نے پو چھا۔ ’’اگر ہم تمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دیں تو !‘‘
مصیبت کے تو ہم کیڑے ہیں صاحب‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا۔’’ ہمیں معقول اُجرت ملنی چاہئے۔ پھر ہمیں آپ جہنم ہی میں کیوں نہ جھونک دیں۔
’’یہ تو بہت بری بات ہے صاحب !‘‘فریدی نے کہا۔
میں بھی اس کی اس کمینی حرکت سے خوش نہیں ہوں‘‘۔ آرتھر نے کہا‘‘۔ خیر میں اسے ایسی سزا دوں گا کہ وہ عمر بھریادر کھے گا۔
فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ آرتھر کی چالوں پر غور کر رہا تھا۔
’’دریائے نامتی پار کرتے ہی وہ مجھے قتل کرنے کا ارادو رکھتے ہیں ‘‘۔ آرتھر بولا۔
’’ کیوں خریدی نے چونک کر پو چھا۔
’’تا کہ پورا خزانہ کیلے ہضم کر سکے‘‘۔
’’ لیکن یہ آپ کو معلوم کیسے ہوا؟‘‘
’’باپ بیٹی میں اس کے متعلق مشورہ ہور ہا تھا ۔ آرتھر نے جواب دیا۔
’’تب تو واقعی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے ۔ فریدی بولا۔
’’سنو میں نے ایک تد بیرسوچی ہے ۔ آرتھر نے کہا۔
’’کیا‘‘۔
’’ہم لوگ کھانے پینے کا ضروری سامان لے کر رات ہی کو یہاں سے چل دیں۔
’’ان دونوں کو یہاں تنہا چھوڑ دیا جائے ۔ فریدی نے پو چھا۔
’’اور مزدور ؟‘‘
’’انہیں میں ٹھیک کرلوں گا‘‘۔ آرتھر نے کہا۔
’’مگر صاحب ‘‘۔
’’کچھ نہیں میں یہ طے کر چکا ہوں‘‘۔ آرتھر بولا ۔ ’’بے ایمانوں کو بے ایمانی سے پہلے مزہ چکھا دینا زیادہ اچھا ہے؟‘‘
اگر تم میرے ساتھ چلو گے تو مالا مال کر دوں گا۔