آرتھر اب فریدی کو اتنے ہی چاول دینے لگا جیتنےکہ اس نے دوسروں کو دئے تھے تو فریدی اس سے الجھ پڑا۔
’’بھلا صاحب اتنے میں میرا کیا ہوگا فریدی نے کہا۔
’’کیا یہ کم ہے ار تھر تیز لہجے میں بولا ۔
’’اتنے ہی میں نے سب کو دیے ہیں ۔
’’صاحب میں ان سب سے زیادہ کام کر سکتا ہوں فریدی بولا۔
’’کیا کام کر سکتے ہو‘‘۔
’’بڑی بڑائی چٹا نیں لڑھکا سکتا ہوں۔ جنگلی جانوروں سے لڑسکتا ہوں۔ ہاتھیوں کے سونڈ اکھاڑ سکتا ہوں۔ میں شیر کا بیٹاہوں۔ فریدی نے اپنی چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور پھر دوسرے مزدوروں کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ ان جوانوں میں سے مجھے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے ایک ہاتھ پراٹھا کرکم ازکم ایک میل تک لے جا سکتا ہوں‘‘۔
’’اوہ بڑے بہادر ہو تم ‘‘۔
’’جی صاحب ‘‘۔
فریدی کے قریب ہی ایک قومی ہیکل نوجوان پہاڑی مزدور کھٹرا اس کی ڈینگین سن رہا تھا۔ اسے بے اختیار ہنسی آگئی ۔ تو کیا میں جھوٹ کہہ رہاہوں۔ میرے بیٹے۔ فریدی اس کی طرف مڑ کر آستین سے اپنی رال پوچھتاہوا بولا ۔
’’نہیں تم بالکل سچ کہہ رہے ہو ۔ وہ ہنس کر بولا۔ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم لوگوں سے زیادہ پیٹوہو۔
’’دیکھو میرے بچے تم ابھی مجھے نہیں جانتے ۔ فریدی نے کہا۔ تمہیں شاید اپنے تن وتوشی پر گمند ہے۔ ذرا میرا پنجہ ہی موڑدو‘‘ فریدی نے اپنا پنجہ اس کی طرف بڑھا دیا ۔ آر تھر دونوں کو دلچسپی سے دیکھنے لگا۔
نوجوان نے فریدی کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا ئیں اور زور کرنے لگا لیکن موڑ نا تو در کنار فریدی کے ہاتھ میں جنبش تک نہ ہوئی۔
’’بس کر میرے بچے ۔ فریدی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا۔ ’’مجھے تیری طاقت کا اعتراف ہے لیکن یہ پنجہ لوہے کا ہے ‘‘۔
نوجو ان مزدور نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا، دوسری طرف چلا گیا۔