خیر حمید کو یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ انگریز زخمی نہیں ہوا۔ خود سے تعجب ہونے لگا کہ اتنی جلدی میں فریدی اتنا کامیاب نشانہ کیسے لے سکا۔ لیکن اسے یہ سوچ کر الجھن ہوری تھی کی پولیس اس معاملے کی تحقیقات ضرور کرے گی اور اگر یہ چیز ظاہر ہوگئی تو بڑی سبکی ہوگی ۔
وہ فریدی کی نیک نامی پر ایک ہلکا سا دہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چہ جائیکہ اس پر قانون شکنی کا الزام عائد ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس انگریز اور اس کی ساتھی لڑکی نے ہم لوگوں کو اچھی طرح پہچان لیا ہو گا۔
اب اگر کہیں اور مدبھیڑ ہوگئی تو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ فریدی کے آتے ہی وہ ا سے واپس چلنے کا مشورہ دے گا۔
لیکن اسے اس کی ایک فی صدی بھی توقع نہیں تھی کہ فریدی اس کے مشورے پر عمل کرے گا۔
وہ اس کی ضدی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا جب تک کہ وہ کم بخت پیتل کی مورتی مل نہ جائے گی اور فریدی اس کو دریافت نہ کر لے گا ، اس کا یہاں سے ہلنا ناممکن ہے۔
دس بج گئے تھے لیکن فریدی نہ لوٹا۔ رات حددرجہ تاریک تھی۔ آسمان میں غبار ہونے کی وجہ سے ستارے بھی مدھم پڑ گئے تھے ۔
رام گڑھ کی حسین پہاڑیاں تاریکی کی چادر اوڑھے خاموش کھڑی تھیں ۔
-پہاڑی جھینگروں کی تیز آوازوں نے ماحول میں ایک عجیب قسم کی ویران یکسانیت پیدا کر رکھی تھی۔ کبھی کبھی بھٹکے ہوئے تیتر کی صدا سناٹے میں لہرا کر رہ جاتی
حمید برآمدے میں بیٹھا فریدی کا انتظار کر رہا تھا اس نے ابھی تک کھانا بھی نہ کھایا تھا۔ حمید کی تشویش بڑھتی جاری تھی وہ سوچ رہا تھاکہ کہیں فریدی کسی مصبیت میں نہ پھنس گیا ہو ۔
اسے کچھ دور اندھیرے میں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ دوسرے لمحےمیں فریدی اس کے سامنے کھٹر امسکرارہا تھا۔
’’اور اب آپ اس طرح مسکرا ر ہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو‘‘۔ حمید جھلا کر بولا ۔
’’بگڑ ومت پیارے ۔‘‘ فریدی چہک کر بولا ۔ ’’مہینوں کی منزل گھنٹوں میں طے کر کے آرہا ہوں‘‘۔
’’خواہ مخواه اتنی دیر پریشان کرڈالا‘‘۔حمید نے بیزاری سے کہا۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ اب شوہر پرست بیوی کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دو گے ‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا ۔
’’بس بس رہنے دیجئے ‘‘۔ حمید منہ سکوڑ کر بولا‘‘ ۔ ’’ ابھی بتاؤں گا تو جو اس گم ہو جائیں گے‘‘ ۔
’’کیوں؟ کیا ہوا ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ و و انگر یزبرُی طرح زخمی ہو گیا ہے‘‘۔