سر ہنری فنلے
یکم اپریل ۱۷۱۳ء
آرتھر نے قہقہ لگایا اور وہ پر چہ واپس کر دیا۔ حمید اور جولیا حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔
’’ کیا بات ہے‘‘ملکہ نے آرتھر سے پوچھا۔
’’ہم لوگ خزانے کی تلاش میں آئے تھے ۔ آرتھر نے کہا۔ ’’ اور میں نے وہ خزانہ پالیا اور اس کا تنہا مالک ہوں ‘‘۔ اور پھر آرتھر نے اسے سب کچھ سمجھا دیا۔ وہ کچھ بولی نہیں۔ اس کے چہرے سے بہر حال یہ معلوم ہور ہا تھا کہ اسے اپنی حکومت چھوڑنے کا غم ہے۔
دن گزرتا جار ہا تھا ۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف جھک رہا تھا۔ وہ کنچار کے علاقے سے نکل کر ستیل ندی کے دہانے میں داخل ہورہے تھے۔ فریدی بدستور خاموش بیٹھا تھا ملکہ کبھی کبھی خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ لیتی تھی۔
آرتھر بھی مطمئن نہیں تھا۔
’’لیکن ان لوگوں پر ہمارا دیوتا میمون اعظم لیے مہربان ہو گیا ۔ ملک کے طویل خاموشی کے بعد آرتھر سے لاطینی زبان میں کہا۔ اے ملکہ میں نے مناسب سمجھا کہ تجھے تیری نسل کے لوگ تیرے پاس موجود ہیں۔ یہ بوڑھا تیرا عزیز ہے اور یہ لڑکی شاید رشتے میں تیری بہن لگتی ہو۔ اٹھ اور ان دونوں کو بوسہ دیا
’’ میمون اعظم نے گرج کر کہا۔
ملکہ نے اٹھ کر سر جارج اور جولیا کی پیشانیاں چوم لیں اور انہوں نے بھی اسے بوسہ دیا۔
’’اور بیٹا آرتھر بن مانس انگریزی میں بولا ۔ ’’آج سے عہد کرلو کہ کبھی اپنے ساتھیوں کو دھوکہ نہ دو گے۔
’’ارے سر جارج یہ تو انگریزی بھی جانتا ہے ۔ آرتھر سہمی ہوئی آواز میں بولا۔
’’میں دیوتا ہوں۔ آرتھر بن مانس نے حمید کی طرف اشارہ کر کے کہا’’ میں علم دوں تو یہ گونگا بھی انگریزی بولنے لگے۔ ہاں گو نگے آرتھر سے انگریزی میں بات کرے۔
’’کیپٹن آرتھر دیوتا سچ کہتا ہے ‘‘حمید نے مسکرا کر انگریزی میں کہا آرتھر بوکھلا گیا۔
’’جارج یہ کیا معاملہ ہے ۔ آرتھر نے خوف زدہ آواز میں کہا۔
’’میں کیا جانوں ۔ جارج اٹھتاہوا بولا ۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ اب ذرا تم پتوار پکڑ لو‘‘۔
’’آرتھر خاموشی سے چوارکھچنے لگا۔