پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’تم جھوٹے ہو۔ جارج ہنس کر بولا۔ وہ خزانہ اس وقت بھی تمہارے پاس ہے اور تم اس کے تنہاما لک ہو۔

’’اوہ سر جارج میں جانتا ہوں کہ تم دھوکہ دہی کے سلسلے میں مجھے قانون کے حوالے کر دو گے لیکن مجھے اس طرح زچ مت کرو !میں سب کچھ بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ خزانہ تمہیں مبارک رہے۔ تم جیتےمیں ہار گیا۔ لیکن میری درخواست ہے کہ میرا مضحکہ مت اُڑاؤ‘‘۔

’’آرتھر مجھے تم سے ہمدردی ہے ۔ سر جارج نے کہا‘‘ تم نے مجھے دھوکا ضرور دیا تھا۔ لیکن میں تمہیں معاف کر دیا۔ محض اس لئے کہ اب تم اس خزانہ پر قابض ہو چکے ہو اور اگر ایسانہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں معاف نہ کرتا ۔

’’ سر جارج مجھے پریشان نہ کرو ان آرتھر نے ایک بچے کی طرح بے بسی سے کہا۔

بخدامیں تمہیں پریشان نہیں کر ر ہوں‘‘ ۔ جارج نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ یہ لو   میں تمہارے ہاتھ پیربھی کھو ل دیا ہوں۔ جارج نے بن مانس کی طرف دیکھا۔ اس کا اشارہ پاتے ہی سر جارج نے آرتھر کے ہاتھ پیر کھول دئیے و ہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حیرت کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک الفاظ بھی نکل نہ سکا البتہ ملکہ کے چہرہ پر بشاشت دوڑ گئی۔

تو کیا اب یہ لوگ ہمیں قتل نہ کریں گئے ۔ ملکہ نے لاطینی زبان میں آرتھر سے پوچھا۔

’’نہیں ‘‘۔ آرتھر نے جواب دیا۔ لیکن میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

پھر وہ جارج کی طرف مخاطب ہوا اور حمید کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

اس گونگے کا ساتھی کہاں گیا ؟‘‘

’’ اسے بن مانس نے مارڈالا ۔سر جارج نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ مجھے افسوس ہے ‘‘۔ آرتھر بولا ۔ وہ ایک بہادر اور وفادار آدمی تھا اور میں اس کے مقابلہ میں ایک ذلیل آدمی ہوں‘‘ ۔

’’تم اس خزانے کے لئے بے تاب ہو ۔ سر جارج نے کہا۔ لویہ خزانہ میر یہ سی جی لا دیوتا کی سینگ کے اندر سے نکلا ہے ۔

سرجارج نے ایک بہت پرانا تہ کیا ہوا کاغذ آرتھر کی طرف بڑھایا ۔ آرتھر اسے لے کر بلند آواز سے پڑھنے لگا۔

’’تم خزانے کی تلاش میں آئے ہو خوش آمدید!میں سچ مچ ایک بہت بڑا خزانہ تمہیں سونپ رہا ہوں۔ کیا تمہارے لئے یہ خزانہ کم ہے کہ تم ایک سفید فام عورت یا اس کے بچوں کو وحشی درندوں کے بچوں سے آزاد کرا کے اپنے ساتھ لئے جار ہے ہو۔ کیا یہ کم ہے کہ تمہارے اس کارنامے پر تمہاری آنے والی نسلیں فخر کر سکیں گی۔ میں سر ہنری فنلے اپنی سفید فام بیوی (جواِن وحشیوں کی ملکہ ہے) کے بطن میں اپنی یاد گار چھوڑے جارہا ہوں۔ میں جارہا ہوں ورنہ میں بھی ان کی درندگی کا شکار ہو جاؤں گا۔

اپنے ملک میں پہنچ کر اس بات کی کوشش کروں گا کہ اپنے ساتھ یہاں تک ایک مہم لے آؤں اور اپنی بیو ی کو یہاں سے لے جاؤں لیکن مجھے اس کی امید نہیں۔ میری قوم صرف ایک عورت کے لئے اتنا بڑا خطرہ مول نہ لے گی۔ خیر میں انتہائی کوشش کروں گا اور اگر اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو میں اپنی لالچی قوم کو دوسری طرح راضی کروں گا۔ میں سی جی لا دیوتا کی ایک پتیل کی مورتی بنا کر اسے انتہائی پر اسرار طریقے پر شہرت دوں گا۔

ان دنوں میرے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خزانوں کی تلاش میں مشرق کا سفر کرتے ہیں۔ دولت کی لالچ میں اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں کرتے ۔ میں انہیں اسی طرح کنچارکے جنگلوں میں بھیجوں گا۔

کاش یہ میر امشن کامیاب ہو سکے! بہت ممکن ہے کہ میری اولا دہی میں سے کوئی اس کی کوشش کرے۔

بہر حال میں خدا اور اس کے بیٹے کی رحمتوں کا منظر ہوں۔ اگر میں اس مشن کی کامیابی سے پہلے مر بھی گیا تو اس وقت تک میری روح بے قرار رہے گی۔ جب تک میرے سفید قام بچے اپنے مہذب ملک میں نہ پہنچ جائیں گے ۔ تم پر خدا اور اس کے بیٹے کی برکتیں نازل ہوں ‘‘۔

Leave a Comment