پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

 چاروں جا کر کشتی پر بیٹھ گئے ۔ حمید کشتی کھیچنے لگا۔ سر جارج رائفل لئے بیٹھاتھا۔ دوسرے کنارے پر کوئی نہیں تھا۔ صرف دو تین کشتیاں کھڑی تھیں وہ بآسانی پار اتر گئے۔

بن مانس جولیا کا ہاتھ پکڑے تھا۔ حمید اور جارج ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ بن مانس کو دیکھ کر جنگلیوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ جب وہ لوگ بستی میں آئے تو عورتیں اور بچے ڈر ڈر کر اپنے جھونپڑوں میں گھس گئے ہر طرف شور بر پا تھا ۔ لوگ بستی چھوڑ چھوڑ کر جنگل کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بہتیرے عبادت گاہوں میں گر کر چیخیں مار مار کر رور ہے تھے۔ پھر یہ لوگ اس احاطے میں پہنچے جہاں انہوں نے ملکہ اور آرتھر کو دیکھا تھا۔ اور جہاں بڑے بڑے بت نصب تھے جیسے ہی ان لوگوں نے بن مانس کو دیکھا بھگڈ رمچ  گئی۔ وہاں بھی بہتیرے سجدے میں گر گئے تھے۔

فریدی بن مانسوں کی طرح شور مچا تا ہوا چھل کر چبوترے پر چڑھ گیا تھا۔ آرتھر نے بھاگنا چاہا لیکن دوسرے ہی لمحے میں سرجارج کے ہاتھ میں دبی ہوئی رائفل کی نال اس کے سینےپرتھی ۔ ملکہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی ۔ فریدی نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ تھوڑی دیر بعد اس احاطے میں ان کے علاوہ ایک منفس بھی باقی نہ تھا۔ حمید نے آرتھر کے ہاتھ پیررسی سے جکڑ کر ایک طرف ڈال دیا اور پھر چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ بھاگتے ہوئے جنگلیوں کا شور کہیں دورسنائی دے رہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے جھونپڑے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ یہ شاید ان کی زندگی میں پہلا واقعہ تھا کہ ان کے دیوتا بن مانس نے ………ان کی بستی میں آکر رانہیں درشن دیا تھا۔

بر بارانی کی دو تا کی بینک تو انے میں مشغول ہو گیا۔ عید اور جولیا کھانے پینے کا سامان اکٹھا کر نے مجھے۔ کی ابھی تک بے ہولی ہوں کے کاندھے پر پڑی تھی۔

باند گھنٹوں کے بعد وہ ایک دی گئی میں اچھے وہ دنے اس پار کر ہے تھے۔ فریوی نے حمید کورانے کے تعلق پہلے ی کبھار ہا تھا۔ وہ پاتے اسی پر کر کے جان والے کتنے کے مطابق سر کرنے کے بجائے دور والے پانی کی تالا بنگل خدلی سے گزرتا ہوا آبی سفر جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس طرح وہ کشتی پر پیچھے ہی پیچھے رام گڑھ کے قریب بھی لکھے تھے۔ باری والا کنش اب سے تین سو برس پرانا تھا۔ جسے سر بطری نے ترتیب دیا تھا اور فریوی نے نیا اقوام اپنی نافر الموالی معلومات کی نام کیا تھا۔ اس طرح سفر جاری رکھنے کی ایک وجہ اور یہ بھی تھی کہ انہیں سواری کے لئے اور کوئی دوسری چیزیں بھی نہیں سکتی۔ مچھروں کو آرتھر کے ور نکلا تے ہوئے مزدوروں سمیت وہ پہلے ہو گا چکا تھا۔

حمید اور سرجارج کشتی کھے ر ہے تھے ۔ آرتھر بندھا ہو پڑا تھا۔ ملکہ ہوش میں آچکی تھی وہ خاموش اور سہمی  ہوئی ایک طرف بیٹھی تھی۔ فریدی اب تک بن مانس کی کھال پہنیے ہوئے تھا۔ اسے خوف تھا کہ سمیلی  قوم کے لوگ حملہ نہ کر دیں۔ اس لئے اس نےیہی  مناسب سمجھا کہ کھال اس وقت تک پہنے رہے جب تک کہ علاقے میں سے گزر نہ جائے گرمی اور کھال کی  بد بو ہونے کی وجہ سے اس کا سر چکرانے لگا۔

’’خزانے کا کیا ہوا سر جارج ‘‘۔آرتھر نے پڑے پڑے پوچھا۔ اور اس وحشی جانور کوتم نے کس طرح کام میں لیا ۔

’’وحشی جانور کی لمبی داستان ہے وہ پھر کبھی سناؤں گا۔ سر جارج پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ لیکن  خزانہ…

خزانے پر تم پہلے ہی قبضہ پا چکے ہو اور اس کےتنہا مالک ہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

’’کیا مطلب آرتھر چونک کر بولا ۔میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ مجھے خزانہ نہیں مل سکا‘‘۔

Leave a Comment