پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’مجھ پر اعتماد کرو اور خدا پر بھر وسا رکھو ۔ فریدی نے کہا ’’ ہم روز روشن میں ان کے درمیان پہنچیں گے‘‘۔

’’ آخر آپ کی اسکیم کیا ہے ۔

حمید نے بے تابی سے پوچھا۔

’’ تم جانتے ہو کہ میں پہلے سے اپنی اسکیم نہیں بتا تا‘‘۔

فریدی نے اپنے کپڑے سکھائے اور پھر باہر نکل گیا۔ وہ ان سے کہہ گیا کہ سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ جائے گا۔

فریدی کے چلے جانے کے بعد حمید جو لیا اور جارج کو فریدی کے کارناموں کی داستانیں سناتا ر ہاوہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتارہا کہ فریدی نے آج تک کوئی غلط قدم اٹھایاہی نہیں اور وہ اتنا خوش قسمت ہے کہ بعض اوقات اس کی حماقتیں بھی اس کی کامیابی کی وجہ بن گئیں۔ حمید نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اسے محض سراغ رسانی کا شوق اس محکمےمیں لایا ہے، ورنہ وہ خودایک کافی مالدار آدمی ہے۔

’’ اس کی بیوی اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتی ہوگی۔ جولیا بولی۔

’’ میرے شیر نے یہ روگ ہی نہیں پالا ۔ حمید نے کہا۔

’’کیوں‘‘

’’محض اس لئے کہ دوا سے گھر یلو آدمی بنانے کی کوشش کرے گی ‘‘۔ حمید نے کہا۔

تار یکی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی تھی۔ آسمان میں نندا سے چھپکیاں ہی لیتے معلوم ہورہے تھے ۔ ہر طرف ایک پراسرار روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا سناٹا تھا۔ دور تک پھیلے ہوئے جنگل بے کراں آسمان کی وسعتوں سے سرگوشیاں کرتے معلوم ہورہے تھے۔

دفتاًایک خوفناک بن مانس خاموشی سے غار میں داخل ہوا۔ حمید کی پشت غار کے دہانے کی طرف تھی۔ جو لیا اور جارج اونگنے لگے  ھے۔ بن مانس کے داخل ہونے کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ اس نے حمید کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ حمید چوک کر مڑا لیکن دوسرے ہی لمحےمیں و ہ چیخ کر جارج پر گر پڑا ۔جولیا اور جارج جاگ پڑے۔ دونوں کی گھگلی بندھ گئی دفتاً بن ماس آدمیوں کی طرح قہقہہ مار کر ہنسا۔

ڈرونہیں۔ میں فریدی ہوں‘‘۔ بن ماس نے کہا۔ ’’ میں نے اس بن ماس کی کھال اتار کر اپنے جسم پرفٹ کرلی ہے۔ حمید تم دیکھ کربتاؤ کہیں سے کوئی تو کمی نہیں رہ گئی‘‘۔

’’تینوں ہنسنے لگے لیکن ان کی ہسی میں اب تک خوف شامل تھا۔ حمید ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھا کر نیچے سے اوپر تک فریدی کا جائزہ لینے لگا۔

’‘سو فیصدی خالص بن مانس -۔حمید ہنس کر بولا ۔لیکن اس حماقت کی ضرورت؟‘‘ ۔

’’تمہیں پھر سے مہذب دنیا کی روشنی دکھانے کے لئے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ اب میں سمیلی قوم کا ایک زندہ دیوتاا ہوں اور تم لوگ میری پناہ میں ہو۔ کیا وہ اب ہمیں اپنی سرزمین میں نہ داخل ہونے دیں گے مگر اس کھال کی بدبو سے میر ادماغ پھٹاجارہا ہے۔ سورج نکلنے ہی والا ہے۔ جلدی کروکشتی کنارے پر تیار ہے اور ہاں اب یہ بھی سن لو۔ اب میں اس وقت تک خاموشی اختیار کرلوں گا جب تک ہم اس سرزمین سے نکل نہ جائیں۔ جارج تم اس بات کا خیال رکھنا کہ آرتھر اور اس کی سفید ملکہ یہاں سے نکل کر کسی طرف جانے نہ پائیں۔ ہم انہیں واپس لے چلیں گے۔

Leave a Comment