پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’ سینگ فریدی نے کہا۔ ’’ صرف سینگ اس بت کے ماتھے پر نکلے ہوئے سینگ کو توڑناہے۔ لیکن مجھے کسی خزانے کی توقع نہیں ہے‘‘۔

’’تمہیں اس کا پتہ کیسے لگا ‘‘۔سر جارج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ نہایت آسانی سے یہ کوئی ایسی مشکل چیز تھی ۔ فریدی نے کہا

’’مورتی کے مختلف حصوں پر کچھ حروف کندہ تھے، جو بظاہر ان کے اعضاء کے ناموں کے پہلے حروف معلوم ہوتے تھے۔ لیکن ان حروف کے کندہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ ایک بچہ بھی کسی مورت یا تصویر کے اعضا کے نام بتا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ حروف کندہ کرنے کا مقصد کچھ اور تھا لہذا میں نے ان حروف کو ترتیب دے کر ایک بامعنی لفظ ہارن (سینگ) بنایا۔ ان حروف سے اس کے علاوہ کوئی اور با معنی  لفظ بنتا ہی نہیں‘‘۔

’’ تم ٹھیک سمجھے خدا کی قسم بالکل ٹھیک سمجھے ۔ سر جارج نے چیخ کر کہا۔ ’’ لیکن تم نے یہ کیسے کہا کہ خزانہ کی توقع ہیں‘‘۔ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ جولیا چیخ  پڑی۔ فریدی چونکا۔ ایک سیاہ رنگ کا چھ فٹ اونچا بن مانس ان کی طرف چلا آرہا تھا۔ فریدی نے سر جارج وغیرہ کو مار کے اندر دو کیل دیا اور خود اقل سیدھی کر کے نشانہ لینے لگا۔ رائفل چلی بن مانس کے داہنے شانے پر سے بال اڑ گئے اس نے لڑ کھڑا کر ایک خوفناک چیخ ماری پھر فریدی کی طرف جھنپٹا۔

 فریدی نے پھر فائر کیا اس بارگولی ٹھیک اس کی پیشانی پر پڑی تھی۔ وہ گر پڑا اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن کھٹرانہ ہو سکا۔ وہ بیٹھ کر مٹی اڑانے لگا۔ اس کی چیخیں بہت زیادہ خوفناک ہوتی جارہی تھیں۔ فریدی نے پے در پے دو تین فائر

کئے اور وہ بالآخر ڈھیر ہو گیا۔

تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد جولیا کو ہوش آیا اور پھر وہ سب مردہ بن مانس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔

’’میں نے آج تک اتنا خوفناک گوریلا نہیں دیکھا ‘‘۔ سر جارج نے کہا۔

’’ اور اتنا احمق شکاری بھی تم نے نہ دیکھا تھا ‘‘۔ حمید نے مسکرا کر کہا۔

’’ جو خواہ مخواہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتا ہے‘‘۔

’’ہم تم لوگوں کے احسان مند ہیں ۔ جولیا بولی۔

’’ہاں !فریدی نے آگ کے قریب بیٹھے ہوئے کیا ۔ ” ’’کچھ زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ اس وقت صرف ایک آدمی کشتی کی نگہبانی کر رہا تھا۔ جسے میں نے رئفل کا کندہ مار کر بے ہوش کر دیا اور کشتی لے آیا۔

’’اوہ تم نے اسے مارکیوں نہیں ڈالا ۔ وہ ہوش میں آنے کے بعد ضرور شور مچائےگا۔

’’ میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا عادی نہیں‘‘۔ فریدی کہا۔ وہ صبح تک ہوش میں نہیں آسکتا اور اگر آ بھی گیا تو کیا ہوگا وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

’’بھلا تمہاری ایک رائفل کسے کسے سنبھل سکے گی۔ جارج نے کہا

’’اب شاید رائفل چلانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ فریدی بولا ۔ وہ کیسے ‘‘جولیا بولی۔ بس دیکھتی جاؤ ۔ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر چونک کر بولا ’’ہم سورج نکلتے ہی اس پار پہنچ  جائیں گئے۔

’’معلوم ہوتا ہے کہ واقعی تمہار او ماغ خراب ہو چلا ہے‘‘۔

Leave a Comment