پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

احاطے کی دیوار کے نیچے تین طرف مسلح آدمی کھڑے تھے۔ یہ لوگ بھی وحشی معلوم ہوتے تھے انہوں نے بھی اپنی گردنوں میں کھوپڑی کی ہڈیوں کی مالا ئیں لٹکا رکھی تھیں۔ سامنے ایک بہت بڑا سائبان تھا جس کے لیے ایک کافی بلند چبوترے پر چھوٹے چھوٹے کرسی نما تخت پڑے ہوئے تھے۔

ان لوگوں کے داخل ہوتے ہی ہتھیار بند وحشیوں نے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا او رسنکھ پھو کنےلگا جس کی آواز سے جو لیا ایک بار پھر چکرا گئی ، اگر فریدی اسے سہارانہ دیتا تو یقینًا گرگئی ہوتی۔

ان لوگوں کو ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ شور بدستور جاری رہا۔ دفتًا سائبان کےنیچے سے دو آدمی ہرے رنگ کے لبادے پہنے ہوئے نمودار ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کچھ کہا ور مجمع پرسناٹا چھا گیا۔ فریدی وغیر ہ کے گرفتار کرنے والوں کا پیشرو آگے بڑھا اور اس نے ان دونوں سے کچھ کہا ہ دونوں چابوترے سے اتر کر ان کے پاس آئے اور فریدی کو گھورنا شروع کیا۔ وہ پلک جھپکائے بغیر انہیں گھور رہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی آنکھیں پتھر کی ہوں۔

 پھر ان دونوں نے جارج فنلے کی را ئفلوں  اور پستولوں پر قبضہ کرلیا اور اس وقت تک ان لوگوں کی جامہ تلاشی لیتے رہے جب تک کہ ایک ایک کار توی دستیاب نہیں ہو گیا۔ فریدی کی گٹھری بھی ٹٹولی تھی لیکن اس میں تمباکو کے بنڈل اور ایک چھوٹی چلم کے علاوہ اور تھا ہی کیا ۔

بندوقیں وغیرہ چھن جانے پر جولیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جارج اسے دلاسہ دینے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن خود اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور حمید کے چہرے پرتو زلزلہ سا آ گیا تھا۔ کبھی اس کے ناک کے نتھنے پھڑ کنے لگتے تھے کبھی ہونٹ کا پنے لگتے۔ اس وقت اس نے فریدی کو قہر آلود نگاہوں سے نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اس وقت ایک عجیب قسم کی بے بسی تھی۔

دافتاً بہت سی  گھنٹیاں بجنے لگیں اور ترہیان بھونکی جانے لگیں۔ دیوار کے قریب کھڑے ہوئے مسلح وحشی سجدے میں گر گئے ۔ سائبان کے پیچھے ایک جلوس دکھائی دے رہاتھا۔ رنگ برنگ کی قبائیں لہرارہی تھیں ۔ سب سے پہلے ایک مرد اور ایک عورت سائبان کے نیچے آئے۔ مرد آر تھر تھا جس نے اپنے قومی لباس کے بجائے ایک چمکیلا لبادہ پہن رکھا تھا جس میں جا بجا خوش رنگ اور قیمتی پتھر نکلے ہوئے تھے۔ عورت غالباً یہاں کی سفید قام ملکہ تھی ۔ یہ ایک خوبصورت اور جوان العمر صورت تھی اس کے سر پر سیاہ رنگ کی لکڑی کا ایک تاج تھا جس کی چوٹی پر ایک بڑا سا ہیر انصب تھا۔ وہ دونوں بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ کے لوگ جو شاید در باری تھے ان کے پیچھے پڑی ہوئی چوکیوں پر بیٹھ گئے۔

’’ اوہ جارج  فنلے !‘‘آرتھر طنزیہ انداز میں بولا ۔ ’’مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔ پھر و ہ فریدی کی طرف مخاطب ہو کرپہاڑی زبان میں بولا۔

 اور تم دغا باز تم سے تو اچھی طرح سمجھوںگا‘‘۔

’’ لیکن بزدلوں کی طرح نہیں میں تمہیں بہادر سمجھتا ہوں ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’ جارج !میں یہاں کی ملکہ کا شوہر ہوں۔ کل ہی ہماری شادی ہوئی ہے ۔ آرتھر نے ہنس کر کہا۔

’’ اور کل ہی تم اس کے ساتھ دفن کر دیئے جاؤ گئے ۔ جارج طنز یہ انداز میں بولا۔

’’ اور کل کا حال کون جانے ممکن ہے کل میں قدرتی موت مر جاؤں۔ آرتھر ہنس کر بولا ۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا کی  حسین ترین عورت میری ہوئی ہے یہ جنگلی پھول جس میں خوشبو بھی ہے اور رنگ بھی ‘‘۔

’’کیا یہ انگریزی بول سکتی ہے‘‘۔ جولیا نے بے ساختہ ہوچھا۔

’’نہیں لیکن اتنی لاطینی جانتی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ زبان شاید شروع سے یہاں کی ملکائیں ایک دوسری کو سکھاتی آئی ہیں ۔

آرتھر نے کہا۔

Leave a Comment