پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’جولیا بولی ’’اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کا تذکرہ ہی نہ کرتا ۔

’’ ہاں میر ابھی یہی خیال ہے‘‘۔ آرتھر نے کہا۔ پھر وہ فریدی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پیاری زبان میں بولا۔ جاؤ جاؤ اپنا بر تن لاؤ تم ہر وقت یہاں سے چائے لے سکتے ہو اور رات کو سوتے وقت میرے پاس آنا میں تمہارے چھالوں میں دو الگا دوں گا۔

تھوڑی دیر بعد حمید اور فریدی آگ کے پاس بیٹھے چائے پی رہے تھے۔

’’ کیوں برخوردار ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔ ’’کہو کیسی رہی۔

’’بہت اچھی ‘‘۔حمید بے زاری سے بولا۔ اور چاول کے تسلے کو آگ پر سے اتارنے لگا۔

’’ ابھی کیا ہے میں اس سے بھی زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش اور کہو تو جولیا سے تمہاری شادی کرادوں‘‘۔

’’ بس جناب کی عنایت کا شکریہ ۔ حمید نے کہا۔ ‘‘ اس وقت تو مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے میرے باپ کی بھی کبھی شادی نہ ہوئی ہو‘‘۔

سورج طلوع ہوتے ہی پھر سفر شروع ہو گیا۔خیمے اکھاڑ کر خیچروں پر ہار کر دیئے گئے۔ جن مزدوروں کے پاس خچر تھے وہ ان پر سامان لادنےکے بعد خود بھی بیٹھ گئے۔ بقیہ لوگ اپنے سروں پر کچھ نہ کچھ اٹھائے ہوئے پیدل چل ہے تھے۔

جولیا اور جارج فنلے خچروں پر سوار آگے آگے چل رہے تھے۔

اس وقت قافلہ بلندی سے ایک پُر فضاواری میں اتر رہا تھا خشک پہاڑوں کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا۔ چاروں طرف ہری بھری پہاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں ۔

نیچے وادی میں چھوٹی سی پہاڑی ندی ننھے ننھے قطرے اچھالتی ہوئی تیز رفتاری سے بہہ ر ہی تھی۔ سناٹے میں پانی کی آواز ایسی معلوم ہورہی تھی جیسے خوفناک دھندلکوں میں ستار کی مدہم سی جھنکار حمید کی رومان پسندطبیعت گنگنانے کے لئے بے قرار ہوگئی ۔

لیکن وہو تو گونگاتھاوہ جھنجھلا گیا اس کا دل چاہا اپنے خچرکے دونوں کان اکھاڑ لائے۔ فریدی و در تھاور نہ وہ اسے ایک آدھ بارکھا جانے والی نظروں سے ضرور گھورتا ۔

اس کا خچرجو لیا کے سنہرے بالوں کے نیچے سرخ و سپید گردن جس کے درمیان میں ایک لطیف کی سلوٹ تھی۔ حمید کے دل میں گدگدیاں پیدا کر رہی تھی۔ کاش وہ بول سکتا جولیا کافی خوب صورت تھی۔ اس کی گہری نیلی آنکھیں دو پہاڑیوں کے درمیان خلا سے دکھائی دینے والی آسمان کی طرح پر کشش اور روح کو ایک انجانی دنیا میں کھینچ لے جانے والی تھیں ۔

آنکھوں اور چہرے میں دوسری دل آویز چیز او پری ہونٹ کی ہلکی  سنہری روئد گی تھی اور جب اس میں پسینے  کی ننھی ننھی بوندیں بھی شامل ہو جا ئیں تو دو اور زیادہ حسین دکھائی دینے لگتی۔

دن بھر کی مسافت طے کرنے کے بعد جب وہ چائے کا پہلا گھونٹ لیتی تو اس کی آنکھوں میں نشہ سا جھلکنے لگتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سارے جسم کی مسکن اس کے چہرے پر ایک غم آلویز ماہٹ بن کر چھیل گئی ہو۔

حمید غیر ارادی طور پر اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ سوچتا کاش و ہ اس حالت میں رہنے پر مجبور نہ ہوتا کاش وہ بول سکتا‘‘۔

کارواں وادی میں اتر آیا تھا آگے بڑھنے سے پہلے ندی پار کر نی ضروری تھا۔

’’ندی زیادہ گہری نہیں ہے ۔ آرتھر نے جارج فنلے سے کہا ۔ ’’ہم لوگ آسانی سے گزر جا ئیں گے۔ میں اس علاقے میں کچھ دن رہ چکا ہوں ۔ جارج فنلےنے بھی اپنا خچرپانی میں اتار دیا۔

 تھوڑی دیر بعد پورا قافلہ ندی پار کر گیا سامنے دور تک ساتھ میدان پھیلا ہوا تھا۔

’’ دوسری چڑھائی ذرا تکلیف دہ ہوگی۔ آرتھر نے جارج فنلے سے کہا۔

’’کیوں‘‘

’’ وہاں ہمیں خودہی راستے بنانے پڑیں گے لیکن یہ وقت زیادہ دور تک قائم نہیں رہے گی۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ہمیں اس کے لئے دو تین دن پہلے ہی اپنی پچھلی تھکن دور کرنی پڑے گی۔

’’ہوں ‘‘جارج فنلے نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔

Leave a Comment