پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

 دور کھڑے ہوئے مزدوروں نے ہنسنا شروع کر دیا اور شکست خورد ہ  مزدور خود ہی کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا بولا ۔ ’’مان گیابا با واقعی تو استاد ہے ‘‘۔ اور پھر وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا اپنی ٹولی میں جاملا۔

’’ واقعی بہت طاقت ور ہے ۔ جارج فنلےنے آرتھر سے کہا۔

’’ مگر بہت گندا مجھے تو بہت گھن آتی ہے ‘‘جولیا بولی اور فریدی دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔

’’صاحب بولتے ہیں تم بہت طاقتور ہو‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے کہا۔ لیکن میم صاحب تم کو گندا کہتی ہیں۔ تمہارےمنہ سے رال بہتی ہے۔‘‘

’’صاحب میرے منہ میں چھالے ہیں جب وہ اچھے ہو جا ئیں گے تو رال خود بخود بند ہو جائے گی‘‘۔

’’اوہ اچھا ہم تمہیں چھالوں کی دودیں گے‘‘ ۔ آرتھر نے کہا۔

’’لیکن صاحب اب میری طاقت بہت گھٹ جائے گی اور شاید میر ابھائی تو مری جائے گا‘‘۔

’’کیوں ؟ ‘‘آرتھر نے پوچھا۔

’’ ہم دونوں چائے کے عادی ہیں ۔ بھلا ہمیں چائے یہاں کہاں سے ملے گی ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’ہم تمہیں جانے دیں گے جاؤ اپنا بر تن  آرتھر نے کہا ۔

’’صاحب کا بہت بہت شکریہ ‘‘فریدی نے کہا۔ آپ بھی نکولس صاحب کی طرح نیک اور رحم دل آدمی ہیں ‘‘۔

’’کون نکولس صاحب‘‘۔ آرتھر نے پوچھا۔

’’ارے آپ نے نکولس صاحب کا نام نہیں سنا۔ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’میجر یو ایم نکولس افریقہ کے مشہور شکاری ۔

’’تم انہیں کیا جانو‘‘ آرتھر نے پوچھا۔

’’ارے بھلا مجھ سے زیادہ انہیں کون جانے گا ۔ فریدی نے کہا۔

’’میں نے تین سال تک ان کے ساتھ افریقہ کے کالے جنگلوں کی خاک چھانی ہے‘‘۔

’’آرتھر ہسنے لگا جارج فنلےنے اس سے ہنسی کی وجہ پوچھی۔ ’’یہ کہہ رہا ہے کہ میجر نکولس کے ساتھ افریقہ میں رہ چکا ہے‘‘۔

’’ممکن ہے ۔ جارج فنلےنے کہا۔

’’مجھے تو اب اس پر کچھ شبہ ہو چلاہے ۔ آرتھر نے کہا۔

’’کیوں جارج فنلے نے چونک کر پوچھا۔

’’ کہیں یہ بھی انہیں دیسیوں میں سے ہو جنہوں نے مورتی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

’’اوہ جارج فنلےنے کہا اور فریدی کو گھورنے لگا۔

Leave a Comment