پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’لیکن میں کیا کروں گا۔ حمید اکتا کر بولا ۔

’’تم گونگے بن جانا۔‘‘

’’کیا مطلب‘‘۔

’’تمہارے متعلق پہاڑیوں میں یہ مشہور کر دوں گا کہ تم گونگےہو ۔ فریدی نے کہا۔

’’بس بس معاف رکھئے خاکسار کو‘‘۔ حمید نے کہا۔’’ میں زندگی بھر ایسا نہیں کر سکتا ۔

’’تو پھر کل تم گھر واپس چلے جاؤ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’خیر دیکھا جائے گا۔ حمید نے کہا۔ آپ اپنا پروگرام بتا ئے ۔

’’بس صرف اتنی سی بات کہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ چلتا ہے ۔ فریدی نے کیا۔

محض اس مورتی کار از جانے کے لئے ؟‘‘ حمید نے کہا۔

’’لیکن یہ کوئی عقل مندی کی حرکت نہ ہوگی ۔ حمید نے کہا ۔ یہ تو وہی مثل ہوئی کہ شکاری کا کھیلیں اور بے وقوف ساتھ پھریں‘‘۔

’’فی الحال اسے بے وقوفی ہی سمجھ لیں ۔ فریدی نے کہا میں مکمل ارادہ کر چکا ہوں۔ اور اگر راستے میں آرتھر یا جولیا نے ہمیں پہچان لیا تو شامت ہی آجائے گی ۔

’’تم مطمئن رہو۔ اس کی نوبت نہ آنے پائے گی ۔ فریدی نے کہا۔

’’میں تو پانچ سال سے مطمئن بیٹھا ہوں‘‘۔

’’ اماں تم عجیب آدمی ہو ۔ فریدی جھلا کر بولا ۔ ’میں تمہیں مجبور کب کرتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو تو میں کب کہ رہا ہوں کہ میں ساتھ نہ چلوں گا۔ لیکن چلنے کا جو طریقہ آپ اختیار کرنے والے ہیں دو انتہائی تکلیف دہ ہو گا ۔ ہر قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ گا نہ تو ہمارے پاس قاعدے کے کپڑے ہوں گے اور نہ جوتے ۔ یار تم واقعی بڑے عیاشی ہو۔ فریدی مسکرا کر ہوا ۔  اور اس زندگی میں بھی تو آکر دیکھو کہ یہ تختی پر لطف ہے‘‘۔

’’خیر صاحب چھوڑئیے ۔ حمید نے جمائی لیتے ہوئے کہا ۔ اب چیند آرہی ہے‘‘۔

Leave a Comment