بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

ہُد ہُد کو عمران نے بالکل اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔ وہ سچ مچ تھوڑا سا بے وقوف تھا لیکن عمران کے اشارے پر بالکل مشین کی طرح کام کرتا تھا۔ کاہل اور سست ہونے کے باوجود بھی کام کے وقت اس میں کافی پھر تیلا پن آجاتا تھا… مگر اس کام سے وہ بری طرح بیزار تھا جو آج کل اُسے سونپا گیا تھا۔ وہ اس کام کو بھی کسی حد تک برداشت کر سکتا تھا… مگر کم از کم اے ۔ بی۔سی ہوٹل میں قیام کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن عمران سے خوف بھی معلوم ہوتا تھا اور وہ بے چارہ ابھی تک اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اسے حقیقتاً کیا کرنا  ہے۔ ویسے محکمہ اُسے مچھلی کا شکار کرنے کی تنخواہ تو دیتا نہیں تھا۔

 کل دو ہوٹل میں داخل ہوا تھا اور آج اُسے عمران کی ہدایت کے مطابق شکار کھیلنے کے لئے صبح سے شام تک سمندر کے کنارے بیٹھنا تھا لیکن وہ اے بی سی کی فضا اور ماحول سے سخت بیزار تھا اُسے وہاں ہر وقت برے آدمی اور بری عورتیں نظر آتی تھیں۔ اس وقت دو ناشتے کی میز پر بیٹھا جلدی جلدی حلق میں چائے اُنڈیل رہا تھا۔ وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ بات یہ تھی کہ اسے کاؤنٹر کے قریب وہی عورت نظر آگئی تھی جس نے پچھلی رات اسے بہت پریشان کیا تھا۔ رات وہ نشے میں تھی اور ہُد ہُد کے سر ہو گئی تھی کہ وہ اسے فلم ’’دیو اس ‘‘کا گانا، بالم آئے بسو مورے من میں‘‘ سنائے ہد ہد کی بوکھلاہٹ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس تفریح میں دلچسپی لینے لگے تھے ۔ پتہ نہیں کس طرح ہُد ہُد نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور کمرے سے شکار کا سامان لے کر گھاٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہاں آنے کے مقصد سے تو واقف ہی تھاد و اچھی طرح جانتا تھا کہ عمران کو اس علاقے سے کیوں دلچسپی ہو سکتی ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ خوداُ سے کیا کرنا ہے، البتہ وہ اپنی آنکھیں ضرور کھلی رکھنا چاہتا تھا۔

اس حصے میں سمندر پر سکون تھا ادھر لانچوں اور کشتیوں کی آمد ورفت بھی نہیں رہتی تھی۔ اُسے اپنے علاوہ دو، تین اور بھی نظر آئے جو پانی میں ڈور ڈالے بیٹھے اُونگھ رہے تھے۔ وہ ایک بجے تک جھک مارتا رہا لیکن ایک مچھلی بھی اس کے کانٹے میں نہ نگی… لیکن شاید وہ اس سے بے خبر تھا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک آدمی کھڑا خو داسی کو شکار کرنے کی تاک میں ہے۔

وہ آدمی چند لمحے کھڑا سگریٹ کے کش لیتا رہا ۔ پھر آہستہ آہستہ ہُد ہُد  کی طرف بڑھا۔

 ” آج کل شکار مشکل ہی سے ملتا ہے۔‘‘ اُس نے ہُد ہُد سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

ہُد ہُد  چونک کر اسے گھورنے لگا۔ یہ ایک دُبلا پتلا اور دراز قد آدم تھا ،عمر تیسں اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ اس کے شانے سے ایک کیمرہ لٹک  رہا تھا۔‘‘ جج… جی ہاں’’ ہُد ہُد اپنے چہرے پر خوش اخلاقی کے آثار پیدا کرتا ہوا بولا۔

’’آپ اس شوق کو کیسا سمجھتے ہیں‘‘ ۔ نو دارو نے پوچھا۔

 “مم… معاف فرمائیے گا۔ مم… میں سمجھا نہیں‘‘۔

 ’’ اوہ… میرے اس سوال کو کسی اور روشنی میں نہ لیجئے گا۔ میرا تعلق دراصل ایک با تصویر ماہنامے سے ہے اور میرا کام یہ ہے کہ میں مختلف قسم کی ہابیز (Hobbies) کے متعلق معلومات اور تصاویر فراہم کروں‘‘۔

’’ یہ مم، میری ہابی، نہیں بلکہ …پپ پیشہ ہے۔’‘ ہُد ہُد مسکرا کر بولا۔

’’ میں یقین نہیں کر سکتا جناب ” نووارد بھی بننے لگا۔ ” ہمارے یہاں کے پیشہ ور سمندر میں جال ڈالتے ہیں۔ ان کالباس اتنا شاندار نہیں ہوتا اور وہ تنکوں کی ہیٹ نہیں لگاتے ‘‘ہُد ہُد  بھی خواہ مخواہ ہنسنے  لگا اور نو وارد نے کہا ۔ ” میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اگر آپ مجھے شکار کھیلتے ہوئے دو تین پوز دے دیں۔‘‘

’’ یہاں اکیلا …مم …میں… تت تو نہیں ہو۔”

’’درست لیکن میں انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی تصویر کسی ایسے ماہنامے میں شائع ہو جو امریکہ ،انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ جیسے ممالک میں جاتا ہو ۔‘‘

ہُد ہُد گدھے کی طرح پھول گیا اور اُس نے اپنے تین پوز دیئے لیکن اس شوق سے متعلق اظہار خیال کرتے وقت وہ بری طرح ہکلانے لگا۔ ظاہر ہے کہ اُسے مچھلیوں کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ ہر مچھلی لذیذ نہیں ہوتی اور خواہ وہ کسی قسم سے تعلق رکھتی ہو اس میں کانٹے ضرور ہوں گے۔

’’میں زبانی …ن، نہیں… بب ، بتا سکتا‘‘ اس نے آخر کار تنگ آکر کہا ” لکھ لک …کر…و… دے سکتا ہوں۔”

’’ ہوتا ہے، ہوتا ہے،‘‘ نو وارد سر ہلا کر بولا‘‘ بعض لوگ صرف لکھ سکتے ہیں، بول نہیں سکتے ، اچھا، کوئی بات نہیں ، مجھے اس کے بارے میں جتنا بھی علم ہے خود ہی لکھ لوں گا۔ ویسے آپ مجھے اپنا نام اور پتہ لکھوادیجئے ۔”

 ہُد ہُد نے اطمینان کی سانس لی۔ ظاہر ہے کہ اُس نے نام اور پتہ غلط ہی لکھوایا تھا۔ نو وار در خصت ہو گیا لیکن اس نوارد کی گھات میں بھی کوئی تھا جیسے ہی وہ ر تیلے حصے کو پار کر کے بندرگاہ کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچا، ایک آدمی تو دے کی اَوٹ سے نکل کر اس کا تعاقب کرنے لگا۔ یہ آدمی عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔