بے ہوشی کے بعد ہوش کسی طرح آتا ہے؟ کم از کم یہ کسی بے ہوش ہونے والے کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں ہے۔ بہر حال، عمران کو نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ کس طرح ہوش میں آیا لیکن آنکھ کھلنے پر شعور کی بیداری میں دیر نہیں لگی۔
وہ ایک کشادہ اور سجے سجائے کمرے میں تھا لیکن تنہا نہیں تھا۔ اُس کے علاوہ کمرے میں پانچ آدمی اور بھی تھے۔ ان کے جسموں پر لمبے لمبے سیاہ چسٹر تھے اور چہرے سیاہ نقابوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک آدمی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا۔
“ہاں بھئی کیا دیکھا؟ ‘‘ان میں سے ایک نے اُس سے پوچھا۔ آواز سے عمران نے اُسے پہچان لیا۔ یہ وہی تھا جس سے کچھ دیر قبل ٹیلوں کے درمیان اُس نے گفتگو کی تھی۔
’’جی ہاں، آپ کا خیال درست ہے۔‘‘ دوسرے آدمی نے کتاب پر نظر جماتے ہوئے کہا ’’علی عمران۔ ایم۔ ایس۔ سی۔ ڈی۔ ایس سی لندن آفیسر آن ایشل ڈیو ٹیتر ، فرام انٹیلی جنس بیورو ۔”
” کیوں دوست ‘کیا خیال ہے؟‘‘ گمنام آدمی عمران کی طرف مڑ کر بولا ۔
’’ایم ۔ ایس ۔سی۔ ڈی۔ ایس۔ سی نہیں بلکہ ایم۔ ایسی۔سی ۔ پی ایچ۔ ڈی‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
“شٹ آپ‘‘ گمنام آدمی نے گرج کر کہا۔
’’واقعی میں بڑا بیوقوف ہوں ، روشی ٹھیک کہتی تھی ۔‘‘ عمران اس طرح بڑبڑایا ۔ جیسے خود سے مخاطب ہو۔
’’تم ہمارے متعلق کیا جانتے ہو ؟ ” گمنام آدمی نے پوچھا۔
’’یہی کہ تم سب پردہ نشین خواتین ہو اور مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہی ہو ۔“
’’تم یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے ” گمنام آدمی کی آواز میں غراہٹ تھی ۔
’’فکر نہ کرو۔ مرنے کے بعد چلا جاؤں گا۔ عمران نے اپر واہی سے کہا۔
گمنام آدمی کی خوفناک آنکھیں چند لمحے نقاب سے عمران کو گھورتی رہیں… پھر اس نے کہا۔ تمہیں بتا ناہی پڑے گا کہ تمہارے کتنے آدمی کہاں کہاں کام کر رہے ہیں ؟ “
’’کیا تم لوگ سچ مچ سنجیدہ ہو ؟ ‘‘عمران اپنے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا کر کے بولا۔
’’کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت اُن کی خاموشی بھی بڑی ڈراؤنی لگ رہی تھی ۔ عمران پھر بولا ۔ ‘‘‘تمہیں یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے ۔”
’’بکو اس۔ ہمارے فائل بہت احتیاط سے مرتب کئے جاتے ہیں ‘‘ گمنام آدمی نے کہا۔
“تب پھر میں بھی غلط ہو گیا ہوں گا۔ ‘‘عمران نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا “…’’ کمال ہے میں یعنی واہ کیا بات کہی ہے۔ گویا اپ اپنے لئے کہیں بھی جگہ نہیں ہے، یارو یہ کیا ظلم ہے کہ تم لوگ مجھے محکمہ سراغ رسانی سے منسلک کر رہے ہو ۔”
’’ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ گمنام آدمی غصے کے لہجے میں بولا۔ “تمہیں صبح تک مہلت دی جاتی ہے۔ اپنے آدمیوں کے پتے اور نشان بتا دو۔ ورنہ…‘‘
’’ میرا خیال ہے ۔‘‘ ایک نقاب پوش نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ” جلتے لو ہے والی تدبیر کیسی رہے گی۔ ‘‘
’’وقت نہیں ہے ‘‘۔ گمنام غرایا۔ ” صبح دیکھیں گے ۔ “
دو سب کمرے سے نکل گئے اور دروازہ باہر سے مقفل کر دیا گیا۔
عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور سر کا وہ حصہ ٹول کر جہاں چوٹ لگی تھی ، برے برے سے منہ بنانے لگا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا جائے گا۔ وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھا کہ اُس نے مجرموں کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔
اُس نے بے وجہ اُن لوگوں کو ہُد ہُد کا پتہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک اسکیم تھی اور وہ اُس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا۔ اُس نے اُس آدمی کا تعاقب کر کے جس نے سمندر کے کنارے ہُد ہُد کے فوٹو لئے تھے کم از کم مجرموں کے ایک اڈے کا پر تو لگا ہی لیا تھا اور و ہیں اُس نے اس آدمی کو بھی دیکھا تھا جس کا بایاں کان آدھا غا ئب تھا۔
عمران تھوڑی دیر تک بے حس و حرکت آرام کرسی میں پڑا رہا۔ اُس کا ذہن بڑی تیزی سے حالات کا جائزہ لیتا رہا۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا ۔ شاید پوری عمارت پر سناٹے کی حکمرانی تھی۔ کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی ۔ عمران اُٹھ کر کھڑکیوں اور دروازوں کا جائزہ لینے لگا… لیکن چند ہی لمحوں میں اُس پر واضح ہو گیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ سارے دروازے ایسے تھے جو باہر سے مقفل کئے جاسکتے تھے ۔ اُس کے ذہن میں ایک دوسرا انتہائی اہم سوال یہی تھا۔ عمارت اُس وقت خالی ہے یا کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں حالات غیر یقینی تھے۔ عمارت میں اُس کا تنہا ہونا نا ممکنات میں سے تھا لیکن اگر اُس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے تو عمارت پر قبرستان کی سی خاموشی کیوں مسلط تھی ؟ انہوں نے اپنی دانست میں ایک خطرناک دشمن کو پکڑ لیا تھا۔ لہٰذا اس کی طرف سے غافل ہو کر سور ہنا قرین قیاس نہیں ۔ عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح اُسے ناشتے کی میز پر خوش آمدید کہنے کے لئے مہمان نہیں بنایا جائے گا۔ یہاں ایسی آؤ بھگت ہوگی کہ شکریہ تک ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ وہ اُٹھ کر ٹہلنے لگا… پھر اچانک اس نے دروازہ پیٹ کر چیخنا شروع کر دیا۔
باہر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی عورت نے سریلی آواز میں ڈانٹ کر کہا ۔” کیوں شور مچارہے ہو؟”
’’میں باہر جانا چاہتا ہوں۔‘‘ عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ‘‘بکو اس مت کرو۔”
’’شٹ اَپ ۔ عمران بہت زور سے گرجا۔’’ میں تجھ جیسی کُتیا کی بچی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ کسی مرد کو بھیج دے ۔”
’’تم، کتے کے پلّے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ ورنہ گولی مار دی جائے گی ۔‘‘
اس بار عمران نے اُسے بڑی گندی لگالیاں دیں۔ جواب میں وہ بھی برس پڑی اور عمران نے اس سے اندازہ لگا لیا کہ دہ عورت عمارت میں تنہا ہے، ور نہ وہ اس کی مرمت کے لئے کسی مرد کو ضر ور بلاتی۔
عورت تھوڑی دیر تک اسے برا بھلا کہتی رہی ہے …پھر خاموش ہوگئی ۔ عمران اس کے قدموں کی آواز سن رہا تھا ۔ اس نے انداز ولگا لیا کہ وہ قریب ہی کسی کمرے میں گئی ہے۔ “
عمران سوچ رہا تھا کہ اگر ایسے حالات میں بھی دو ہاتھ پر ہاتھ رکھےبیٹھا ر ہا تو آئندہ نسلیں اُسے سچ مچ احمق اعظم کے نام سے یاد کریں گی۔ وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک اُس کی نظررسی کے ایک لچھے پر پڑی اس نے جھپٹ کر اُسے اُٹھالیا۔ رسی کی موٹائی آدھا انچ سے زیادہ نہیں تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے وہ پانی میں بھگو کر خشک کی گئی ہو۔ دو چند لمحے اُسے دیکھتا رہا اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔