دوسری سہ پہر کو شام کے اخبارات کی ایک کاپی بھی کسی ہا کر کے پاس نہیں بچی۔ ایک اخبار روشی کے سامنے بھی تھا اور اس کی آنکھیں متحیر انہ انداز میں پھیل کر رہ گئی تھیں۔ علی عمران …عمران .. وہ سوچ رہی تھی۔ وہی احمق وہی دلیر۔ محکمہ سراغ رسانی کا آفیسر…. بعید از قیاس… اُس نے ایک بہت بڑے مجرم کو اس کے ساتھیوں سمیت تنہا گر فتار کیا تھا۔ مجرم بھی کیسا؟ جس نے مہینوں مقامی پولیس کوناکوں چنے چبوائے تھے ۔ جس کا ذاتی ٹیلفون ایکسچینج تھا۔ شہر میں جس کی متعد دکو ٹھیاں تھیں۔ جو ایک بہت بڑاا سمگلر تھا۔ جس کے متعدد گوداموں میں پولیس نے ناجائز طور پر بر آمد کیا ہوا بیش قیمت مال دریافت کیا تھا جو بظاہر ایک معمولی ماہی گیر تھا اور ہر شفیلڈ فشریز کے ایک اسٹیمر پر ملازم تھا۔ یعنی یہ اسٹیمر خود اسی کا تھا۔ لیکن اسٹیمر کا کپتان اُسے اپنا ما تحت سمجھتا تھا۔ پر شفیلڈ کی فرم کا مالک ہو تا تھا لیکن فرم کا مگر اس کے وجود تک سے نا واقف تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک معمولی سے ملا ح کو منیجر کیا جانتا۔ وہ اُس وقت اُن سب کا مالک ہوتا تھا جب اُس کے چہرے پر سیاہ نقا ب ہوتی تھی۔ اُس وقت ہر شفلیڈ فشر یز کے تینوں اسٹیمر مچھلیوں کا شکار کرنے کی بجائے اس اسمگلنگ کا ذریعہ بن جاتے تھے۔
وہ ساحل سے پچاس ساٹھ میل کے فاصلے سے گزرنے والے غیر ملکی جہازوں سےا تر اہوا نا جائز مال پار کر تے اور پھر ساحل کی طرف لوٹ آتے۔ بحری پولیس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی کیونکہ مال نچلے حصوں میں ہوتا اور اوپری عرشوں مچھلیوں کے ڈھیر کے ڈھیر دکھائی دیتے تھے۔
یہ اخبار کی رپورٹ تھی لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ بحری پولیس کا عملہ ہر شفیلڈ والوں سے اللہ واسطے کی عقید ت رکھتا تھا۔ اس لئے اُ ن کی کڑی نگرانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ خبر میں یہ بھی تھی کہ اے بی سی ہوٹل کے سامنے والےویرا نے پراُس بھیا نک آدمی کی حکومت کیوں تھی۔ اس کی حقیقت یہ تھی کہ اسمگل کیا ہوا مال اُسی راستے سے خفیہ گوداموں تک پہنچایا جاتا تھا۔ لہذاراستہ صاف رکھنے کے لئے اس بھیا نک آدمی نے (جس کا بایاں کان آدھا کٹا ہوا تھا) وہاں کشت و خون کا بازار گرم کرر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کو وہاں خطرے کا بور ڈ نصب کرنا پڑا۔ خبر میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی تھی کہ اے بی سی ہوٹل والوں کا اُس گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
روشی بڑی دیر تک اخبار پر نظر جمائے رہی… پھر اچانک کسی کی آہٹ پر چونک کر دروازے کی طرف مڑی۔ عمران ، سا منے کھڑامسکرارہا تھا۔ روشی بوکھلا کر کھڑی ہوگئی۔ اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔
’’پچاس بھینسوں کا سودا ہو گیا ہے‘‘عمران نے کہا۔
روشی کچھ نہ بو لی۔ اُس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک کر اسکرٹ میں جذب ہو گئے اخبار پڑھنے سے قبل وہ ایک بیو قوف عورت کی طرح عمران کے متعلق بہت کچھ سوچتی رہی اور اُس نے ان دو دنوں میں عمران کو تلاش کرنے کے سلسلے میں شہر کا کوناکو نا چھا ن ما را تھا۔
’’تم رور ہی ہو ۔ کمال ہے بھئی ؟ ‘‘عمران اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔
’’جائیے ، جائیے… روشی ہاتھ اُٹھا کر بولی۔ اب مجھ میں بے وقوف بننے کے سکت نہیں رہی۔”
’’روشی ۔ ایمان داری سے کہتا ۔ عمران یک بیک سنجیدہ ہو گیا ” کیا میں تم سے زبر دستی ملا تھا۔”
’’لیکن اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟‘‘
’’تمہارا شکر یہ ادا کرنے اور ساتھ ہی ایک بات اور بھی ہے، تم نے ایک بار کہا تھا کہ تم اپنے موجودہ طرز حیات سے بیزار ہو،لہٰذا میں تمہیں ایک مشورہ دینے آیا ہوں۔‘‘
’’مشورہ …میں جانتی ہوں‘‘۔ روشی خشک لہجے میں بولی۔ آپ ہی کہیں گے کہ اب باعزت طور پر زندگی بسر کرو لیکن میں اس مشورے کا احسان اپنے سر پر نہیں لینا چاہتی۔ ذلیل سے ذلیل آدمی بھی اکثر یہ ضرور سوچتا ہے کہ اُسے باعزت طور پر زندگی بسر کر نی چاہئے ۔‘‘
’’میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘عمران نے کہا ” میرے سیکشن کو ایک عورت کی بھی ضروریت ہے تنخواہ معقول لے گی۔
رو شی کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ دو چند لمحے عمران کے چہرے پر نظر جمائے رہی پھر بولی ۔‘‘میں تیار ہوں۔”
’’ہا ہا … عمران نے ااحمقا نہ انداز میں قہقہہ لگایا ‘‘۔ اب میں اپنے ساتھ ایک ہزار بھینسیں لے جاسکتا ہوں ‘‘روشی کے ہو نٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔’’ تم سچ مچ بہت اُداس نظر آ رہی ہو ‘‘۔ عمران نے کہا۔ ’’نہیں تو… نہیں‘‘ وہ زبر دستی ہنس پڑی ۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر اس نے کہا ’’ایک بات ہے”۔
’’ایک نہیں دس با تیں کچھ کہو بھی تو …”
’’ میں تمہارا ادب نہیں کروں گی۔ ‘‘میں تمہیں با س نہیں سمجھوں گی۔”
’’طوطے کہو گی، مجھے آں!‘‘ عمران دیدے پھرا کر بولا
روشی ہنسنے لگی… مگر اس ہنسی میں شرمندگی کی جھلک بھی تھی۔ آخر تم نے سراغ رسانی کا کون ساطر یقہ اختیا ر کیا تھا۔یہ بات اب تک میری سمجھ میں نہ آسکی ۔”