بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

دوسرے دن عمران محکمہ سراغ رسانی کے سپر نٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جس وقت وہ یہاں داخل ہوا تھا اور اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی چہرے پر کچھ اس قم کا تقدس تھا کہ وہ کوئی نیک دل پادری معلوم ہوتا تھا آنکھوں پر تار یک شیشوں کی عینک تھی ۔ داڑھی اب بھی موجود تھی لیکن چشمہ اُتار دیا گیا تھا۔

 سپر نٹنڈنت و ہ ر پورٹ پڑھ رہا تھا۔ جو عمران نے پچھلی رات کے واقعات کے متعلق مرتب کی تھی۔

’’ مگر جناب ‘‘سپر نٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر بعد کہا‘‘ وہ کار چوری کی ہے۔ اُس کی چوری کی رپورٹ ایک ہفتہ قبل کو توالی میں درج کرائی گئی تھی۔”

’’ ٹھیک ہے‘‘ عمران سر بلاکر بولا’[ اس قسم کی مہموں میں ایسی ہی کاریں استعمال کی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں آئے دن کاریں چرائی جاتی ہوں گی ۔”

’’آپ کا خیال درست ہے لیکن وہ کہیں نہ کہیں مل جاتی ہیں لیکن ایسی کار کے ساتھ کسی آدمی کا بھی پکڑا جانا پہلا واقعہ ہے ‘‘

’’ڈرائیور سے آپ نے کیا معلوم کیا ؟ عمران نے پوچھا۔

’’کچھ بھی نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ کل شام ہی کو اُس کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ وہ در اصل ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے اور اُسے صرف تین گھنٹے کام کرنے کی اُجرت تین سو روپے پیشگی دے دی گئی تھی۔”

 ’’آہم… تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جس سے کچھ معلوم ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی، وہ ختم ہی ہو گیا۔”

’’خیر… لیکن ،یہ تو معلوم ہی کیا جاسکتا ہے کہ مرنے والا کون تھا، کہاں رہتا تھا؟ کن حلقوں سے اُس کا تعلق تھا ؟ ‘‘

’’جاوید اس کے لئے کام کر رہا ہے اور مجھے توقع ہے کہ وہ کامیاب ہوگا ۔”

’’ٹھیک… اچھا، کیا آپ اس بات سے واقف ہیں …مگر نہیں ، خیر ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ عمران خاموش ہو کر اپنی پیشانی پر انگلی مارنے لگا۔ وہ در اصل سپر نٹنڈنٹ سے فون نمبر سکس ناٹ کے متعلق گفتگو کرنے جارہاتھا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔

’’کیا آپ کوئی خاص بات کہنے والے تھے ؟‘‘ سپر نٹنڈنٹ نے عمران سے پوچھا۔

’’وہ بھی بھول گیا‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا …پھر اس کے چہرے پر نہ جانے کہاں کا غم ٹوٹ پڑا اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر دردناک لہجے میں بولا‘‘ ۔ میں نہیں جانتا یہ کوئی مرض ہے یا ذہنی کمزوری، اچانک اس طرح ذہنی رو بہکتی ہے کہ میں وقتی طور پر سب کچھ بھول جاتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد وہ  بات یاد ہی  آجائے جو میں آپ سے کہنا چاہتا تھا۔”

 سپر نٹنڈنٹ اُسے ٹٹو لنے والی نظروں سے دیکھنے لگا لیکن عمران کے چہرے سے اُس کی دلی کیفیت کا اندازہ کر لینا آسان کام نہیں تھا۔ پھر اسی تھیسں کے متعلق دونوں میں کافی دیر تک مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ سُپر نٹنڈنٹ نے اُسے بتایا کہ اے ۔ بی سی ہوٹل کے آدمی جعلی نوٹوں سمیت پکڑے گئے ہیں۔ عمران نے نوٹوں کے نمبر طلب کئے سپر نٹنڈنٹ نے دراز سے لسٹ نکال کر اس کی طرف بڑھادی۔

” نہیں ” ۔ عمران سر ہلا کر بولا’’ اس میں صرف وہی نمبر ہیں جو میں ہوٹل میں ہارا تھا۔ ایک بھی ایسا نمبر نظر نہیں آتا جو اُس آدمی والے پیکٹوں سے تعلق رکھتا ہو۔”

” تب تو ہمیں یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ اے۔ بی ۔سی والوں کا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ ہوشیار ہو گیا تھا تو اُسے اے بی سی والوں کو بھی نوٹوں کے استعمال سے روک دینا چاہئے تھا۔”

’’نہیں، اس کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا ۔‘‘ عمران نے کہا ” ہوسکتا ہے کہ تعلق ظاہر نہ کرنے ہی کے لئے اس نے دیدہ و دانستہ اُن آدمیوں کو پولیس کے چنگل میں دے دیا ہو۔“

’’جی ہاں ، یہ بھی ممکن ہے ‘‘سپر نٹنڈنٹ سر ہلانے لگا۔

’’فی الحال ہمیں اے۔ بی۔ سی والوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے‘‘

’’ لیکن اب آپ کریں گے کیا؟ سپر نٹنڈنٹ نے پوچھا۔

’’ یہ بتانا بھی بہت مشکل ہے۔ میں پہلے سے کوئی طریق کار متعین نہیں کرتا۔ بس وقت پر جو سوجھ جائے۔ پھیلی رات کے واقعات کا رد عمل کیا ہوتا ہے، اب اس کا منتظر ہوں۔“

 پھر عمران زیادہ دیر تک وہاں نہیں بیٹھا کیونکہ ایک نیا خیال اس کے ذہن میں سرا بھار رہا تھا۔ وہ وہاں سے نکل کر ایک طرف چلنے لگا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی اندازہ کرتا جارہا تھا کہ کہیں کوئی اس کا تعاقب تو نہیں کر رہا۔ اُس نے آج بھی سپر نٹنڈنٹ سے روشی کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ وہ اُسے پس منظر ہی میں رکھنا چاہتا تھا۔ کچھ دور چل کر وہ ایک پبلک ٹیلیفوں ہوتھ کے سامنے رک گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا دور دور تک کسی کا پتہ نہیں تھا۔ سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہیں تھی۔ کبھی کبھار ایک آدھ کار گزر جاتی تھی یا کوئی راہ گیر چلتا ہوا نظر آ جاتا تھا۔

عمران بوتھ کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا اور پھر اُسے اندر سے بولٹ کرنے کے بعد آلے میں سکہ گرادیا۔ دوسرے لمحے میں وہ سکس ناٹ کو ڈائیل کر رہا تھا۔

’’ہیلو۔‘‘ دوسری طرف سے ایک بھاری آواز آئی۔

’’ میں روشی بول رہی ہوں‘‘ عمران نے ماؤتھ میں میں کہا اگر اس وقت روشی وہاں موجود ہوتی تو اسے عمران کی آوازسن کرغش ضرور آ جاتا۔

“روشی…!”

’’ہاں، میں بہت پریشان ہوں”۔

’’کیوں…؟‘‘

’’اس نے پچھلی رات ایک آدمی کو مار ڈالا ہے، وہ ہماری کار کی اسپٹنی میں چھپ گیا  تھا۔ پھر ایک جگہ اُس نے پچھلا شیشہ توڑ کر ہمیں ریوالور دکھایا۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اُس نے اُسے کس طرح نیچے گرا دیا۔ عمران نے پورا واقع دہراتے ہوئے کہا‘‘ میں نے اُس سے کہا کہ پولیس کو اطلاع کر دے مگر اُس نے انکار کر دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔  بہر حال، میں نے گھبرا   ہٹ میں پولیس کوفون کر دیا کہ فلاں نمبر کے گیراج میں ایک لاش ہے لیکن میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں کون ہوں۔”

’’اُسے علم ہے کہ تم نے پولیس کو فون کیا ہے ؟”

’’نہیں میں نے اُسے نہیں بتایا۔ میں بہت پریشان ہوں۔ وہ کوئی خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔ کون ہے؟ یہ میں نہیں جاتی۔”

” تم اس وقت کہاں سے بول رہی ہو؟“

’’یہ نہیں بتاؤ گی۔ مجھے تم سے بھی خوف معلوم ہوتا ہے۔“

’’ دوسری طرف سے ہلکے سے قہقہے کی آواز آئی اور بولنے والے نے کہا ” تم پبلک بوتھ نمبر چوبیس سے بول رہی ہو ۔”

عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ” میں جارہی ہوں‘‘ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’ نہیں ٹھہرو۔ اس میں تمہاری بہتری ہے۔ ورنہ، جانتی ہو کیا ہو گا۔ اگر پولیس کے ہتھے چڑھ گئیں تو میرا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، بلکہ تم کئی بار نا دانستہ طور پر میرے کام بھی آچکی ہو۔ میں تمہیں اس جنجال سے بچانا چاہتا ہوں … ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم بوتھ کے باہرٹھہرو آدھے گھنٹے کے اندر ہی اندر میرا ایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا ؟ “

’’ کیوں؟ نہیں ،نہیں‘‘ عمران نے احتجاجا ًکہا۔ ” میں بالکل بے قصور ہوں، میں کیا کروں ، وہ خواہ مخواہ میرے گلے پڑ گیا ہے۔”

’’ڈرو نہیں روشی ‘‘۔ بولنے والے نے اسے چمکار کر کہا۔ ” میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں تمہاری بہتری ہے ۔‘‘

عمران نے فوراًٍہی جواب نہیں دیا۔

’’ہیلو۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’ہیلو‘‘ عمران کی کپکپا  ئی ہوئی سی آواز میں بولا۔ ’’ اچھا میں انتظار کروں گی مجھے یقین ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے۔‘‘

’’بہت ڈرگئی ہو ؟ ” قہقہے کے ساتھ کہا گیا ۔ ’’ارے اگر میں تمہیں مارنا چاہا تو اب تک زندہ ہوتیں۔ اچھا ،تم وہیں انتظار کرو۔”

سلسلہ میں منقطع کر دیا گیا۔