بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

بھیانک آدمی

ابنِ صفی
Bhayanak Aadmi By Ibn-e-Safi

 

رُوشی اُسے بہت دیر سے دیکھ رہی تھی۔وہ شام ہی ہوٹل میں داخل ہو اتھا اور سات بج رہے تھے۔سمندر کی طرف سے آنے والی ہو ئیں کچھ  بوجھل سی ہو گئی تھیں۔

جب وہ ہوٹل میں داخل ہو اتھا تو ررو شی  کی  میز کے علاوہ اور ساری میزیں خالی  پڑی تھیں لیکن اب ہو ٹل میں تل  دھرنے کی بھی  جگہ نہیں تھی۔

وہ ایک خو بصورت اور جامہ  زیب نو جوان تھا لیکن یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں  تھی جس کی بناء پر روشی اُس کی طرف متوجہ  ہو سکتی اسی ہو ٹل  میں اس نے درجنوں خو بصورت آدمیوں کے ساتھ سینکڑوں راتیں گزاری تھیں اور اس کی و ہ حس کبھی کی فنا ہو چکی تھی جو صنف قوی   کی طرف متوجہ ہو نے  پر اُکستا تی ہے۔

روشی ایک اینگلو بر میز  عورت  تھی……کبھی لڑکی بھی رہی ہو گی لیکن یہ اَب پر انی  بات ہو  چکی  تھی۔ یہ اسی  وقت کی بات ہے  جب سنگا پور پر جا پا نیوں نے بمباری  کی تھی  اور جد ھر جس کے  سینگ سما ئے تھے بھا گ نکلا  تھا۔رو شی  چودہ سال کی ایک  لڑکی تھی  ۔ اس کا باپ سنگا پور کا ایک بہت بڑا تا جر تھا لیکن  بہت بڑے تاجر کی بیٹی ہو نے کا یہ مطلب تو نہیں  کہ  رو شی تین  دن کے فا قے کے  بعد  ایک کپ  چائے کے عو ض لڑکی سے عورت نہ بن جا تی۔ہو سکتا  ہے کہ اس کے  باپ کو  ایک کپ چائے بھی  میسر نہ آئی ہو کیو نکہ اس میں لڑکی سے عورت بننے کی صلاحیت تو تھی نہیں…… بہر حال روشی اس کے انجام سے آج بھی   نا وا قف تھی اور  اب  وہ پچیس سال کی ایک پختہ کا رعورت تھی لیکن  گیارہ سال قبل کی روشی نہیں تھی ۔چائے کا وہ  کپ اُسے آج بھی یا دتھا  او ر وہ اب تک ایک نہیں  درجنوں آدمیوں کو ایک ایک کپ چائے کے لئے محتاج کر چکی تھی۔

اب اس کے پاس ایک عمدہ  سا آرام دہ فلیٹ تھا ۔دنیا کی ساری  آسا ئشیں میسر تھیں اور اسے یقین  تھا کہ  اب وہ کبھی فاقے نہ کرے گی۔ یہ ہو ٹل کا روبار  کے لئے  یوں  مناسب تھا کہ  بندرگاہ یہاں سے قریب  تھی  اور دن رات یہاں غیر ملکوں کاتا ربندھا رہتا تھا جن میں  زیادہ  تر  سفید نسل کے لوگ ہوتے تھے اور یہ  ہو ٹل  چلتا بھی انہیں کے دم سے تھا،ورنہ عام شہری ادھر کا  رخ بھی نہیں کرتے  تھے مگر رو شی اس بنا  پر بھی  اس نو جوان  میں دلچسپی نہیں  لے رہی تھی کہ وہ کو ئی  جہاز  راں نہیں تھا ۔

بات دراصل یہ تھی کہ  وہ جب سے آیا تھا  قدم قدم پر اس سے حماقتیں سرزرد ہو رہی تھیں ۔جیسے  ہی ویٹر نے پیشانی تک ہا تھ لے جا کر  اسے سلام کیا (اس ہو ٹل کے سارے ویٹر آنے والے گا ہکوں کو سلام کرنا ضروری خیال  کر تے تھے خواہ وہ نئے ہو یا پرانے ) اس نے بھی   با قا عدہ طور پر نہ صرف ویٹر کے سلام کا جواب دیا بلکہ مؤ دبا نہ انداز میں کھڑے ہو کر اس سے  مصافحہ  بھی کرنے لگا اور کافی دیر تک  اس کے بال  بچوں کی خیرت پو چھتا رہا۔

پہلے اُس نے  چائے  منگائی  اور خا موش بیٹھا رہا ،حتی  کہ چائے  ٹھنڈی  ہو گئی …پھر ایک گھونٹ لے کر بُرا سامنہ   بنا نے کےبعد اُس نے چائے  واپس کرکے کا فی کا آرڈر دیا۔

کا فی شاید ٹھنڈی  چائے سے زیادہ  بد مزہ معلوم ہو ئی تھی ۔اُس نے  کچھ اس قسم کے   کا منہ بنا یا  جیسے ابکائی  روک رہا ہو…پھر اُس نے کافی بھی واپس کردی اور پے درپے  ٹھنڈے پانی کا گلاس  چڑھا گیا۔

اندھیرا پھیل گیا اور ہوٹل  میں برق  قمقمے روشن  ہو گئے لیکن  اُس نوجوان  نے شاید  وہاں سے  نہ اُٹھنے  کی قسم  کھا ئی تھی ۔رو شی کی دلچسپی بڑھتی رہی ۔وہ بھی اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی ۔

رات کے کھانے   کا وقت  ہو نے سےقبل ہی میز  پوش تبدیل کر دئے  گئے  اور  میزوں  پر تر وتازہ پھولوں کے ہر گلدان کے سا تھ ہی ایسے گلاس  بھی رکھے  گئے جن میں نیپکن اُڑ سے ہو ئے تھے۔

اُس بے  وقوف نو جوان  نے  اپنی کرسی  پیچھے کھسکا لی تھی اور ایک ویٹر اس کی میز بھی درست  کر رہا تھا ویٹر کے ہٹتے ہی وہ ایک  گلاب کا پھول   گلدان  سے نکال کر  سو نگھنے لگا ۔وہ خیالات میں کھو یا ہوا سا معلوم ہو رہا تھا  اور اُس نے ایک با ربھی  اپنے  گردو پیش نظر  ڈا لنے  کی زحمت نہیں گوارا کی تھی۔شاید  وہ وہاں خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا ۔

رو شی اُسے  دیکھتی  رہی  اورااب وہ  نہ جا نے کیوں اُس میں خا ص  قسم کی کشش محسوس  کر نے  لگی تھی۔ اُس نے کئی  بار وہاں سے اُٹھنا بھی چا ہا لیکن  کا میاب  نہ ہوئی۔

اتنے میں کھا  نے کا وقت ہو گیا اور اُس نو جوان نے کھا نے کا آرڈردیا ۔پھول ابھی تک اس کی چٹکی میں دبا ہوا تھا جسے وہ کبھی سو نگھنے لگتا اور کبھی آنکھیں بند کر کے اس طرح اُس سے گال سہلانے لگتا جیسے ضرور  تاً ایسا کر رہا ہو ۔

کھانا میز پر چن دیا گیا لیکن وہ بدستور بے حس و حرکت بیٹھا رہا ۔وہ اب بھی کچھ  سو چ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ویٹر کے آنے  اور کھا نے  کی موجو د گی کا اُسے علم ہی نہ ہو۔رو شی اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔اچانک اُس نے دیکھا کہ وہ گلاب کا پھول شور بے میں  ڈبورہا ہے اور پھر وہ اُسے چبا بھی  گیا ۔دوسرے ہی  لمحے  اس نے اتنا برا سا منہ بنا یا کہ روشی کو بے ساختہ  ہنسی آگئی۔اُس کے  منہ سے کچلے ہو ئے  پھول کے ٹکڑے پھسل پھسل کر گر رہے تھے۔

’’بوائے ‘‘اس نے رود ینے کے سے انداز میں ویٹر کو آواز دی اور کئی لوگ چو نک کر اُسے  گھورنے لگے ۔ڈائننگ ہال اب کافی آباد ہو چکا تھا۔ شاید پانچ میزیں خالی رہی ہو ں گی۔

’’سب چوپٹ‘‘اُس نے ویٹر سے  گلو کیر آواز میں کہا ’’سب لے جاؤ…بل لاؤ…‘‘

’’ بات کیا ہے  جناب ؟‘‘ ویٹر نے ادب سے پوچھا ۔

’’ہائے کچھ نہیں،سب مقدر کی خرابی …آج کسی چیز میں بھی مزہ نہیں مل رہا ‘‘نوجوان نے مسکین صورت بنا کر کہا ’’بل لاؤ۔‘‘

ویٹر برتن سمیٹ کر وا پس چلا گیا لیکن اُسے وا پس آنے میں دیر نہیں لگی۔نوجوان نے طشتری میں رکھے ہو  ئے پر چے پر نظر ڈالی اور اپنی  جیبیں ٹٹولنے لگا…پھر  د یکھتے ہی دیکھتے اس کی جیبوں سے نو ٹوں کی کئی گڈیاں نکل آئیں جنہیں وہ میز  پرڈالتا ہو ا کھڑا ہو گیا اور اب وہ اپنی اندرونی جیبیں ٹٹول رہا تھا ۔آخر اس نے ایک کھلی ہو ئی گڈی نکالی اور سو  کا ایک نوٹ کھینچ کر طشتری میں رکھ دیا ۔

رو شی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ نوجوان بڑی ہی لا پرو ا ئی سے میز پر پڑی ہوئی نوٹوں کی گڈیوں کو کوٹ کی جیبوں میں ٹھو س رہا تھا ۔روشی نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اس نے دیکھا کہ ڈائننگ ہال کے سارے لوگ اس احمق کو بری طرح سے گھوررہے ہیں  اور اُسے وہاں  کچھ برے لوگ بھی دکھا ئی دیئے جو للچائی ہوئی نظر وں سے احمق کو دیکھ رہے  تھے۔

رو شی اپنی جگہ سےاٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس نوجوان کی میز  کے قریب پہنچ گئی ۔وہ جانتی تھی کہ اُس کا کیا حشر ہونےوالا ہے۔ ڈائننگ ہال  کے بعد دوسرے ہی  کمرے  میں  بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر جوا ہو تا تھا۔وہ جا نتی تھی کہ ابھی دو تین  دلال اُسے  گھیر کر اس کمرے میں  لے  جائیں گے اور وہ چند گھنٹوں کے اندر ہی کو ڑی کوڑی کو محتاج ہو جائے گا ۔

’’کہو طو طے اچھے تو ہو۔‘‘ رو شی نے نوجوان  کے شا نے پر ہاتھ رکھ کر  اتنے بے تکلفا نہ  انداز میں  کہا جیسے  وہ نہ صرف اس سے واقف ہو  بلکہ دو نوں گہرے دوست بھی ہوں ۔

نوجوان چو نک  کر اُسے احمقوں کی طرح دیکھنے لگا۔اُس کے ہونٹ کھلے ہو ئے تھے اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

’’اب تم کہو گے کہ میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں‘‘رو شی اٹھلا کر بولی اور کر سی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔دوسرے طرف قمار کے دلال ایک دوسرے  کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔

’’آہا…کیا تمہیں بولنا نہیں آتا‘‘رو شی پھر بولی۔

’’مم…وو…ہپ‘‘نوجوان ہکلا کر رہ گیا۔

’’تم شاید پاگل ہو‘‘۔وہ میز پر کہنیاں ٹکا کر آگے جھکتی  ہوئی آہستہ سے  بولی‘‘اس خطر ناک  علاقے  میں اپنی امارت جتانے پھرنے  کا یہی مطلب ہو سکتا‘‘

’’خطر ناک علاقہ‘‘نوجوان آنکھیں پھا ڑ کر کر سی کی پشت سے ٹک گیا۔

’’ہاںمیرے طو طے  …کیا  تم یہاں پہلی بار آئے ہو؟‘‘

نوجوان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’کیوں آئے ہو؟‘‘

’’اس نے یہیں ملنےکا وعدہ کیا تھا‘‘نوجوان نے شرما کر کہا۔

’’کس نے ،کیا کوئی  لڑکی ہے؟‘‘

نوجوان نے پھر سر ہلا دیا لیکن اس با ر اُس نے شرم کے مارے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔وہ  کسی ایسی کنواری لڑکی کی طرح  لجا رہا تھا جس کے سامنے اُس کی شادی  کا تذکرہ چھیڑ  دیا گیا ہو  ۔روشی نےا س پر ترحم آمیز نظر ڈالی  ‘‘اگر اُس نے یہاں ملنے کا وعدہ کیا  تھا تو وہ  کوئی اچھی لڑکی  نہیں ہو  سکتی‘‘

’’کیوں …؟‘‘نوجوان  چو نک کر بولا۔

’’لیکن  یہ  تو بتاؤ کہ تم اتنے رو پے  کیوں  سا تھ لئے پھر رہے ہو ؟رو شی  نے اس کے سوال کو نظر انداز  کر تے ہو ئے پو چھا۔

’’جب  تک  اتنی ہی  رقم میری جیب  میں نہ ہو میں گھر سے با  ہر نہیں نکلتا‘‘۔

اچانک ایک دلال نے رو شی  کو اشارہ کیا ۔غا لباً اس اشارے کا یہی مطلب تھا کہ اسے قمار خانے میں لے چلو …لیکن رو شی نے اُس کی طرف سے  منہ پھیر لیا ’’تب تو پھر ہو سکتا ہے کہ یہ تمہاری زندگی کی آخر ی رات ہو‘‘۔روشی نے نوجوان سے کہا۔

’’کیوں خواہ مخواہ ڈرارہی ہو۔‘‘نوجوان  خو فزدہ سی آواز میں بولا ‘‘ میں یو نہی  بڑا بد نصیب آدمی ہوں۔پیٹ بھر کھا نا نہیں کھا  سکتا ۔کوئی چیز ٹھنڈی معلوم ہو تی ہے اور کوئی چیز کڑوی ۔بڑا تھر ڈ کلاس ہو ٹل ہے ۔میرے نانا  کے گاؤں والی  سرائے میں یہاں  سے بدر جہا بہتر کھا نا  ملتا ہے۔‘‘

روشی اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھ کر رہ گئی ۔کچھ دیر خامو شی رہی ،پھر نوجوان اُٹھتا ہوا بولا ’’اچھا  اب میں  جا ؤں گا۔‘‘

’’شاید تم اس شہر کے نہیں ہو ‘‘۔روشی  نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔

’’کیا  تم غیب کی بھی باتیں بتا سکتی ہو؟‘‘نو جوان  کے لہجے میں  حیرت تھی۔‘‘وہ پھر بیٹھ گیا۔

’’یہاں سے نکلنے کے بعد  تمہیں سڑک تک پہنچنے کے لئے   ایک ویرانہ  طے کر نا پڑئے گا ۔‘‘رو شی نے کہا ’’ہو سکتا ہے کہ تم چیخ بھی نہ سکوں اور کئی انچ لمبا ،ٹھنڈا لوہا تمہارے جسم میں اُتر جا ئے۔‘‘

’’میں سمجھا ‘‘

’’تم با ہر مار ڈالے جا ؤگے بد ھو ‘‘رو شی دانت پیس کر بولی۔’’کیا تم نےاس علاقے کی ہو لناک  وارداتوں کے متعلقاخبارات میں بھی نہیں پڑا۔۔۔۔؟‘‘

’’میں کچھ نہیں جانتا‘‘نوجوان  نے بے چین سے پہلو بدل کر کہا۔

’’وہ لڑکی کس وقت آئے گی؟‘‘

’’اوہ ،اَب تو آٹھ بج گئے ۔اُس نے سات بجے ملنے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا۔‘‘

’’تم اُسے کب سے جا نتے ہو؟‘‘

’’کل سے…‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ہاں ،ہاں کل سے ۔کل وہ مجھے ریلوئے ویٹنگ  روم میں ملی تھی۔‘‘

’’اور تم آج دوڑے چلےآئے ،واقعی  بُدھو ہو۔‘‘

’’بات یہ ہے …کک…کہ…‘‘

’’فضول باتیں نہ کرو ۔تمہا رے لئے  دو نوں صورتیں خطر ناک ہیں لیکن ایک میں جان جا نے کا خدشہ نہیں ،البتہ لُٹ ضرور جاؤ گے۔‘‘

’’تمہاری کو ئی بات میری  سمجھ نہیں آرہی ۔‘‘

’’باہر پھیلے ہو ئے اندھیرے پر ایک خطر ناک آدمی  کی حکومت ہے اور وہ آدمی بعض اوقات تفریحاً بھی کسی نہ کسی  کو ضرور قتل کر دیتا ہے ۔مگر تم توسونے کی چڑیا ہو اس لئے تمہیں  جان و مال  دو نوں سے ہاتھ دھو نے  پڑیں گے۔‘‘

’’کس مصیبت میں پھنس گیا‘‘عمران نے گلو کیر  آواز میں کہا ۔’’ جب تک میں نہ کہوں ،خا موشی سے یہیں  بیٹھے رہو‘‘رو شی نے کہا…

’’لیکن تم نے یہاں بھی کسی خطر ے کا تذکرہ کیا تھا ۔‘‘

’’یہاں تم لُٹ جاؤ گے پیارے طوطے ‘‘روشی نے مسکرا کر پلکیں جھپکا تے ہو ئے کہا ۔‘‘ادھر جوا ہو تا ہے اور جو ئے خانے کے دلال تمہاری تاک میں ہیں…‘‘

’’واہ …واہ…احمق نے ہنس کر کہا ۔’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے ،میں تو جواکھیلنا پسند کروں گا۔مجھے وہا ں لے چلو‘‘

’’واہ…میں سمجھی ،تم یہاں  جوا کھیلنے آئے ہو ۔‘‘

’’نہیں …یہ بات نہیں…اُف  ،وہ ابھی تک  نہیں آئی ۔ارے بھئی قسم لے لو، میں جوا کھیلنے کی نیت  سے نہین آیا تھا ،مگر اب کھیلوں گا ضرور ایسے مواقع روز روز نہیں ملتے۔

’’یعنی تم حقیقتاً جواری نہیں ہو۔‘‘

’’نہیں ۔میں  یہ بھی نہیں  جا نتا کہ جوا کھیلا کس طرح جا تا ہے۔‘‘

’’تب پھر کیسے کھیلو گے؟‘‘

’’بس کسی طرح…صرف  ایک بار تجربے  کے لئے کھیلنا چا ہتا ہوں۔سچ کہتا ہوں ،ایسا مو قع کبھی نہیں ملے گا۔‘‘

’’کیسا موقع…؟‘‘

’’بات یہ ہے ،احمق  آگے جھک کر  راز دار نہ انداز میں بولا۔’’نہ یہاں ڈیڈی ہیں اور نہ ممی…‘‘

روشی بے اختیار ہنس پڑی لیکن اُس نوجوان کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی دیکھ کر خود بھی سنجیدہ ہو گئی اور نہ جانے کیوں اس وقت وہ خود کو بھی بے وقوف سمجھنے  لگی تھی۔

’’ڈیڈی اور ممی ، مجھے کڑی پا بندیو ں میں رکھتے ہیں لیکن میں  دنیا دیکھنا  چا ہتا ہوں،میں اب بڑا ہو گیا ہوں نا…ہے کہ نہیں ؟دیکھ لو ،وہ اب تک نہیں آئی۔‘‘

’’ میں تمہیں جوانہ کھیلنے دوں گی…سمجھے؟‘‘

’’کیوں واہ ،اچھی رہی ۔تم کون ہو مجھے روکنے والی ،میں نے آج سے پہلے کبھی تمہیں دیکھا تک نہیں‘‘

’’تم جوا نہیں کھیلو گے ‘‘رو شی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولی۔

’’دیکھتا ہوں،تم کیسے رو کتی ہو مجھے‘‘

اتنے میں قمار خانہ کا ایک دلال اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن کی میز کی طرف بڑھا صورت ہی سے خطر ناک آدمی معلوم ہو رہا تھا۔چہرے پر گھنی مو نچھیں تھیں اور خفیف سے کھلے ہو ئے ہو نٹوں سےاس کے دا نت دکھا ئی دیتے تھے آنکھوں سے زندگی جھا نک رہی تھی ۔وہ ایک کر سی کھینچ کر روشی کے سا منے بیٹھ گیا ،کیا یہ تمہارا دوست ہیں؟‘‘اس نے رو شی سے پو چھا ۔

’’ہاں ‘‘روشی کے لہجے میں تلخی تھی۔

’’کیا پہلی بار یہاں آئے ہیں؟‘‘

’’ہاں …ہاں…‘‘روشی جھلا گئی۔

’’ناراض معلو م ہو تی  ہو‘‘وہ لگاٹ کے سے انداز میں بولا۔

’’جاؤ…اپنا دھندا دیکھو،یہ جواری نہیں ہے‘‘

’’میں جواضرور کھیلوں گا ‘‘احمق نے میز پر گھو نسہ مارکر کہا ‘‘تم مجھے نہیں روک سکتیں…سمجھیں‘‘۔

’’اوہ ،یہ بات ہے‘‘دلال روشی کو گھورنے لگا۔اُس کی آنکھو ں میں کینہ توزی کی جھلک تھی ،پھر وہ احمق کی طرف مڑ کر بولا ’’نہیں مسٹر ،آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔آپ جیسے خوش قسمت لوگ یہا ں سے ہزاروں روپے بٹور کر لے جا تے ہیں اور آپ کی یہ کشا دہ پیشانی۔آہاہا…فتح مندی اور نصیب وری کی نشانی ہے  میرے سا تھ آیئے۔میں آپ کو یہاں کھیلنے کےگر  بتاؤں گا۔جیت پر صرف پندرہ فیصد کمیشن بولئے ٹھیک ہے نا‘‘

’’بالکل ٹھیک ہے یار‘‘احمق اس کے ہاتھ مارتا ہوا بولا‘‘اُٹھو…‘‘

روشی وہیں بیٹھی رہ گئی اور وہ دونو ں اُٹھ کر قمار خانے کی طرف چلے گئے۔