بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

روشی اپنے اقامتی ہوٹل میں پچھلی رات سے عمران کا انتظار کر رہی تھی ۔ اسے وہ ہوٹل میں ٹھہرا کر  جلد ہی واپس آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا تھا۔ وہ ہوٹل میں ٹھہر  کر جلد ہی واپس آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا تھا۔ روشی اس کے لئے بے حد متفکر تھی لیکن اتنی ہمت بھی نہیں رکھتی تھی کہ اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ۔ اُسے پولیس کا خوف بھی تھا اور وہ بھیانک آدمی تو تھا ہی اس کی تلاش میں سارا دن گزر گیا لیکن عمران نہیں آیا۔ اس وقت شام کے چار بج رہے تھے اور روشی قطعی نا امید ہو چکی تھی اُسے یقین تھا کہ عمران کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا یا پھر اس بھیا نک آدمی نے…

وہ اس خیال ہی سے کانپ اٹھی۔ اس کے تصور میں عمران کی لاش تھی۔ وہ پلنگ پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک کسی نے دروازہ پر دستک دی اور روشی اُچھل پڑی لیکن پھر اُس نے سوچا ممکن ہے، ویٹر ہو کیونکہ یہ چائے کا وقت تھا ۔” آجاؤ”۔ اس نے بے دلی سے کہا۔

دروازہ کھلا، عمران سامنے کھڑا مسکرارہا تھا۔ ” تم ‘‘روشی بے تحاشہ اچھل کر اُس کی طرف لپکی ” تم کہاں تھے؟ میں تمہیں مار ڈالوں گی‘‘۔

’’ ہا ئیں ‘‘۔ عمران اس طرح بو کھلا کر پیچھے ہٹ گیا جیسے اُسے سچ مچ  روشی کی طرف سے قاتلانہ حملے کا خدشہ ہو۔ روشی ہنسنے لگی۔ مگر اُسے جھنجھوڑ کر بولی ” تم بڑے سور ہو… بتاؤ کہ کہاں تھے؟“

’’چچی فرزانہ کا مکان تلاش کر رہا تھا‘‘ عمران سنجیدگی سے بولا۔

” کیوں … یہ کون ہیں؟”

’’میں نہیں جانتا ‘‘۔ عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا ” مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ایسے آدمی سے واقف ہیں جس کا بایاں کان آدھا کٹا ہوا ہے۔“

’’کرنے لگے بے تکُی بکواس تم مجھے اس طرح چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟‘‘

” کیا تم مرنا چاہتی ہو۔؟”

’’ہاں، میں مرنا چاہتی ہوں ‘‘۔ روشی جھلا گئی۔

’’ اچھا تو اردو کے عشقیہ ناول پڑھنا شروع کر دو۔ تم بہت جلد بور ہوکر  مر جاؤ گی ۔‘‘

’’ عمران …میں تمہیں گولی مار دوں گی۔‘‘

’’ چلو بیٹھ جاؤ ‘‘عمران اُسے ایک آرام کرسی میں دھکیلتا ہوا بولا  ۔

’’ ہم دونوں کی زندگی کا انحصار صرف اُس نا معلوم آدمی کی موت پر ہے ۔”

روشی اُسے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر بولی‘‘ ۔ تم آخر ہو کیابَلا ؟ مجھے بتاؤ ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی ۔‘‘

’’میں   تم  سے پو چھتا ہوں کہ کیا کل رات فون پر تم نے  پو لیس کو اطلاع دی تھی؟‘‘

’’کس بات کی اطلاع ؟رو شی چو نک پڑی۔

’’یہی کہ  گیراج نمبر   تیرہ میں ایک لاش  ہے ۔‘‘

’’ہر گز نہیں  ۔بھلا  میں کیوں اطلاع دینے لگی ۔‘‘

’’پتہ نہیں …پھر وہ کون  عورت ہے  ۔تم  نے شام کا کوئی اخبا ر دیکھا ؟‘‘۔

’’نہیں  میں نے نہیں دیکھا  مجھے پو ری بات بتاؤ  ،الجھن میں نہ ڈالو ۔

’’پولیس  نے گیراج  کا تا لا   تو ڑ کر  لاش دریافت کر لی ہے ڈرائیور زندہ ہی نکلا ۔صرف بے ہوش ہو گیا تھا ۔اخبا ر  کی خبر ہے کہ  پچھلی  رات کو  کسی نا معلوم عو رت نے  جو لہجے سے  اینگلوانڈین معلوم ہو تی  تھی فون پر اس کی اطلاع  پو لیس کو دی تھی۔‘‘

’’میں قسم  کھا نے  کے لئے تیار ہو ں۔‘‘

’’مجھے یقین ہے کہ تم  ایسی حرکت نہیں کر سکتیں ۔کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ  تم میری اجازت کے بغیر  اس ہو ٹل سے باہر قدم نہ نکالنا  خواہ مجھ سے ایک ہفتے  بعد ہی ملا قات کیوں نہ  ہو۔‘‘

’’میں وعدہ نہیں کر سکتی۔‘‘

’’کیوں…؟‘‘

’’میں تمہا رے ساتھ  ہی  رہوں گی ۔تم مجھے  تنہا نہیں چھو ڑ سکتے۔‘‘

’’یعنی تم  چا ہتی ہو کہ ہم دونوں کی گردنیں سا  تھ  ہی  کٹیں ۔‘‘

نہ جا نے کیوں ،مجھےتمہا ری مو جود گی میں کسی سے بھی خوف نہیں محسوس ہو تا ۔‘‘

’’ اچھا صرف آج رات  اور یہاں ٹھہرجاؤ۔‘‘

’’آخر کیوں ؟تم   کیا کر تے  پھر رہے ہو ؟ مجھے بتاؤ۔‘‘

’’نہیں روشی ،تم بہت اچھی  ہو ،تم آج رات  یہیں قیام کرو گی ۔اچھا بتاؤ ،کبھی تمہیں اے۔بی۔سی ہو ٹل میں کو ئی ایسا  آدمی بھی نظر  آیا  ہے جس کا با یاں کان  آدھا کٹا ہوا ہو؟‘‘

رو شی پلکیں جھپکا نے  لگی ۔شاید وہ کچھ  یاد کر نے کے لئے  ذہن پر  زور دے رہی  تھی’’کیوں؟تم یہ کیوں پو چھ  رہے ہو ؟‘‘اُس نے آہستہ سے پو چھا ۔’’نہیں میں نے وہاں کوئی ایسا آدمی  نہیں دیکھا لیکن  میں ایسے آدمی کو جا نتی ضرور ہوں۔‘‘

’’اے۔بی ۔سی سے تعلق  ہے اس کا ؟‘‘عمران نے پو چھا۔۔

’’نہیں۔وہ اس حیثیت کا آدمی نہیں ہے کہ  اس کا گزاراے۔بی۔سی جیسی مہنگی  جگہوں میں ہو سکے ۔وہ ماہی گیروں کی ایک  کشتی پر ملازم ہے۔‘‘

’’تمہیں یقین ہے کہ اس کا بایا ں کان کٹا ہوا  ہے ۔‘‘

’’ہاں…لیکن تم …‘‘

’’شش… ٹھہرو … مجھے بتاؤ کہ اس وقت کہاں ملے گا ۔ ؟‘‘

’’ میں بھلا کیسے بتا سکتی ہوں۔ مجھے اس کا گھر نہیں معلوم ۔”

’’ تو اُس کشتی ہی  کا پتہ ،نشان بتاؤ جس پر وہ کام کرتا ہے۔”

’’ہر شفیلڈ فشریز!‘‘ عمران نے ایک طویل سانس لے کر آہستہ سے دہرایا۔ پھر اُٹھتا ہوا بولا‘‘ اچھاٹاٹا کل صبح ملاقات  ہوگی۔”

’’ٹھہر و، مجھے بتاؤ کہ تم کس چکر میں ہو؟”

’’میں اپنے بقیہ نوٹ واپس لینا چاہتا ہوں۔”

” کچھ بھی ہو ۔ روشی اُسے گھورتی ہوئی بولی۔ ” اب تم مجھے اتنے احمق نہیں معلوم ہوتے ، جتنے اس شام اے۔ بی ۔ سی میں معلوم ہوئے تھے ۔ “

’’پھر احمق کہا… تم خود احمق‘‘ عمران اُسے گھونسہ دکھاتا ہوا ۔ کمرے سے نکل گیا۔