کارگر مکر کا غازہ نہیں ہونے والا
جاں فزا جھوٹ کا چہرہ نہیں ہونے والا
جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست
وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا
ایڑیاں اپنی رگڑتے رہو تشنہ کامو !
یوں ہی جاری کوئی چشمہ نہیں ہونے والا
دل میں گر شوقِ سفر جانبِ ادراک نہیں
جھیل رہ جائے گا دریا نہیں ہونے والا
بے دماغوں سے شرافت کی توقع ہے تمھیں
شجرِ بے برگ سے سایہ نہیں ہونے والا
دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن
عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا
اب ہٹا دو رُخِ تاباں سے گھنیری زلفیں
’’اِن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا‘‘
کس کو ہے علم بتائے جو یقیں سے راغبؔ
ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا
کلام :افتخار راغبؔ (دوحہ، قطر)