خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’ذرا سو چو ‘‘۔عمران پھر بو لا ۔’’ ایک عا شق  ہی اُردو شاعری کے مطا بق  اپنے محبو ب کو اس با ت کی اجازت دےسکتا ہے کہ وہ جس طرح چا ہے اُسے قتل کرے ۔قیمہ بنا کر رکھ دے یا نا پ نا پ کر سلیقہ سے زخم لگا ئے ۔یہ زخم بد حواسی کا نتیجہ بھی نہیں     ۔لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتا تی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدو جہد کر نی پڑی ہو ۔بس  ایسا معلو م ہو تا ہے جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا ہو کہ جو مزاجِ یا ر میں آئے‘‘۔

فیاض تھوڑی دیر خامو ش رہ کر بو لا ۔’’یہ عما رت تقر یباً پا نچ سال سے خالی رہی ہے۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کےلیے اسے  کھولا جا تا ہے‘‘۔

’’کیوں۔۔۔۔۔؟‘‘

’’یہاں دراصل ایک قبر  ہے ۔جس کےمتعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے ۔چنا چہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھو ل کر قبر کی جا روب کشی کرتا ہے‘‘۔

’’چڑھا وے وغیرہ  بھی چڑھتے ہوں گے؟‘‘ عمران نے پو چھا ۔

’’نہیں ایسی کو ئی با ت نہیں ۔جن لو گوں کا یہ مکا ن ہےوہ شہر میں رہتے ہیں اور اُن میرے قریبی تعلقات ہیں ۔انھوں نے یہاں ایک آدمی اسی لیے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کر لیا کرے ۔یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہو تی ۔بہر حال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لا ش دیکھی ‘‘۔

’’تا لا بند تھا ‘‘۔عمران نے پو چھا ۔

’’ہاں !اوروہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کےنشانا ت نہیں مل سکے جن کی بنا ء پر کہا جا سکتا ہے کہ کو ئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو‘‘۔

تو پھر یہ لاش آسما ن سےٹپکی ہوگی ‘‘۔عمران نے سنجید گی سے کہا ۔’’بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید سے مدد طلب کرو جس کی قبر …‘‘

’’پھر بہکنے لگے ‘‘۔ فیا ض بولا ۔

’’اس عمارت کے ما لک کو ن ہیں اور کیسے ہیں ؟‘‘ عمران نے پو چھا ۔

’’وہی میرے پڑوس والے جج صاحب ۔‘‘ فیا ض بو لا ۔

’’ہائے وہی جج صا حب ۔ ‘‘ عمران اپنے سینے پر ہا تھ ما کر ہونٹ چا ٹنے لگا ۔

’’ہا وہی ۔یار سنجیدگی سے ۔ خدا کے لیے۔‘‘

’’تب میں تمہا ری کو ئی مدد نہیں کر سکتا ‘‘۔ عمران ما یو سانہ اندا ز میں سر ہلا کر بولا ۔ ’’کیو نکہ تم نے میری مدد نہیں کی‘‘۔

’’میں نے‘‘۔فیاض نے حیرت سے کہا ۔ ’’ میں نہیں سمجھا ‘‘۔

’’خودغرض ہو نا ۔بھلا تم میرے کا م کیو ں آنے لگے ‘‘۔

’’اَرے بتا ؤنا ۔ میں واقعی نہیں سمجھا ‘‘۔

’’کب سے کہہ رہا ہو ں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شا دی کرا دو ‘‘۔

’’بکو مت ۔ ہر وقت ےتکی با تیں ‘‘۔

’’میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ‘‘۔عمران نے کہا ۔

’’اگر سنجید گی سے کہہ رہے ہو تو شا ئد تم ا ند ھے ہو‘‘۔

’’کیو ں ؟‘‘

’’اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے ‘‘۔

’’اِسی لیے تو اس سے شادی کر نا چا ہتا ہو ں ۔وہ مجھے اور میرے کتو ں کو ایک نظر سے دیکھے گی ‘‘۔

’’یا ر خدا کے لیے سنجیدہ ہو جا ؤ‘‘۔

’’پہلے تم و عدہ کرو ‘‘۔عمران بو لا ۔

’’اچھا بابا میں ان سے کہو ں گا ‘‘۔

’’بہت بہت شکریہ مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔ کیا کہتے ہیں اُسے لو ریا ں بھول گیا ۔ حالا نکہ ابھی کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا‘‘۔

’’چلو چھو ڑو۔۔۔۔۔کا م کی با تیں  کرو ‘‘۔

’’نہیں ‘اُسے یا د ہی آجا نے دو ۔ ورنہ مجھ پر ہسڑیا کا دوراہ پڑ جا ئے گا ‘‘۔

’’عشق ‘‘۔فیاض منہ بنا کر بولا ۔

’’جیٗو ! شا با ش ‘‘۔ عمران نے اس کے پیٹھ ٹھو نکتے ہو ئے کہا ۔’’خدا تمہا ری  ما دہ کو سلا مت رکھے ۔ اچھا  اب یہ بتا ؤ کہ لا ش کی شنا خت ہو گئی یا نہیں ۔

’’نہیں ۔ نہ تو وہ اس علا قے کا با شندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خا ندان وا لے اس سےوا قف ہیں ‘‘۔

’’یعنی کسی نے اُسے پہچا نا نہیں ‘‘۔

’’نہیں‘‘۔

’’اس کے پا س کو ئی  ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر رو شنی پڑسکے ‘‘۔

’’کو ئی نہیں ۔ مگر ٹھہرو ‘‘۔ فیا ض ایک طرف بڑھتا ہو ا بولا ۔ واپسی پر اُس کے ہا تھ میں چمڑے کا ایک تھیلا تھا ۔ ’’ یہ تھیلا ہمیں لا ش کے قر یب پڑا ہو ا ملا تھا ‘‘۔

عمران تھیلا اُس کے ہا تھ سےلے کر اندر کی چیزوں کا جا ئزہ لینے لگا ۔۔۔۔۔’’ کسی بڑھئی کےاوزار ‘‘۔ اس نے کہا ۔ ’’اگر یہ مقتول ہی کے ہیں  تو ویسے اس شخص کی ظاہری حا لت اچھی نہیں ۔ لیکن پھر بھی یہ بڑھئی نہیں معلوم  ہو تا ‘‘۔

’’کیو ں ؟‘‘