خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’اس کے ہا تھ بڑے ملائم ہیں ۔ہتھلیوں میں کھر دُورا پن نہیں ہے۔یہ ہا تھ تو کسی مصور یا رنگ سازہی کے ہو سکتے ہیں‘‘۔عمران بو لا ۔

’’ابھی تک تم نے کو ئی کا م کی با ت نہیں بتا ئی ‘‘۔فیا ض نے کہا ۔

’’ایک احمق آدمی سے اس سے زیا دہ تو قع رکھنا عقلمندی نہیں ‘‘۔عمران ہنس کر بو لا ۔

’’اس کے زخموں نے مجھے اُلجھن میں ڈال  دیا ہے‘‘۔فیا ض نے کہا

’’اگر تم نے میرے زخموں پر مر ہم رکھا تو میں ان    زخموں کو  بھی دیکھ لو ں گا‘‘۔

’’کیا مطلب !‘‘

’’جج صا حب کی لڑکی ‘‘۔ عمران اس طرح بولا جیسے اُسے کچھ یا د آگیا ہو ‘‘۔ اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پا س ضروررہتی ہو گی ‘‘۔

’’ہاں ۔۔۔۔۔ایک ان کے پا س بھی ہے‘‘۔

’’ہےیاتھی‘‘۔

یہ تو میں نے  نہیں پو چھا ‘‘۔

’’خیر پھر پو چھ لینا ۔ اب اس لاش کو اُٹھو اؤ ۔ پوسٹ ما رٹم کے سلسلے میں زخمو ں کی گہر ائیوں کا خاص خیا ل رکھاجا ئے ‘‘۔

’’اگرزخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسرے کے برابرہو ئیں تو یہ سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حر کت ہے‘‘۔

’’کیوں فضول بکواس کر  رہے ہو ‘‘۔

’’جوکہہ رہا ہو ں اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران  ایم ۔ایس ۔پی ۔ ایچ ۔ڈ ی کی خدما ت حاصل کر نا ورنہ کو ئی ضرو رت نہیں ‘‘۔

’’تمہاری ہدا یت پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور کچھ ‘‘۔

’’اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چا ہتا ہو ں ‘‘۔ عمرا ن نے کہا ۔

پوری عمارت  کے چکر لگا لینے کے بعد وہ پھر اُسی کمرمیں لوٹ آئے۔

’’ہاں بھئی ، جج صا حب سے ذرا یہ بھی پو چھ لینا کہ انھو ں نے صرف اسی کمرے کی ہئیت بد لنے کی کو شش کیوں کر ڈالی ہے۔ جبکہ پو ری عما رت اُسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے ۔ کہیں بھی دیواروں میں پلا سڑ نہیں د کھا ئی دیتا لیکن یہاں ہے‘‘۔

’’پوچھ لو ں گا ‘‘۔

’’اور کنجی کے متعلق بھی پو چھ لینا …اور…ہا  …اگر وہ محبوبۂ ایک چشم مل جا ئے تو اُس سے کہنا کہ ترے  تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پو چھے ۔ شا ئد غالب کی محبوبہ بھی ایک ہی آنکھ رکھتی تھی کیو نکہ تیر نیم کش اکلوتی ہی آنکھ کا ہو سکتاہے‘‘۔

’’تو اس وقت اور کچھ نہیں بتا ؤ گے ‘‘۔ فیا ض نے کہا ۔

’’یا ر بڑے احسان فروش ہو…فروش…شائد پھر بھول گیا ۔ کو نسا لفظ ہے ؟‘‘

’’فرا موش ‘‘۔

’’جیٔو ! ہا ں تم بڑے احسا ن فرا مو ش  ہو ۔ اتنی  دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتا یا ہی نہیں ‘‘۔

دوسرےدن کیپٹن  فیا ض نے عمران کو اپنے گھر  پر مد عو کیا ۔ حا لا نکہ  کئی با ر کے تجر با ت نے یہ با ت  ثا بت کر دی تھی کہ عمران  وہ نہیں ہے جو ظا ہرکر تا ہے ۔نہ وہ خبطی ہے اورنہ احمق۔پھر بھی فیا ض نے اُسے مو ڈ میں لا نے کے لیے جج صاحب کی کا نی لڑکی کو بھی مدعوں کر لیاتھا ۔حا لا نکہ وہ عمران کی اس افتا د طبع کو بھی مذاق ہی سمجھتا تھا لیکن پھر بھی اس نے سو چا  تھوڑی سی تفریح ہی رہے گی ۔فیا ض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیا ض  نے اُسے اُس کے اس ’’عشق‘‘کی دا ستان سنا ئی تو ہنستے ہنستے اُس کا برا حال ہو گیا ۔

فیاض اِس وقت اپنے ڈرا ئنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا ۔ اس کی بیوی اورجج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی مو جو د تھیں ۔

’’ابھی تک نہیں  آئے عمران صاحب  ‘‘۔فیا ض کی بیوی نے کلا ئی پر  بند ھی ہو ئی گھڑی کی طرف د یکھتے ہو ئے کہا ۔

’’کیا وقت ہے؟‘‘فیا ض نے پو چھا ۔

’’سا ڑھے سات‘‘۔

’’بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہو گا ‘‘۔ فیاض مسکرا کر بو لا ۔

’’کیوں !یہ کیسے‘‘۔

’’اس کی ہر با ت عجیب ہو تی ہے۔وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کر تا ہے اُس نے سات بجکر بتیس  منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا ۔ لہٰذا میرا خیا ل ہے کہ وہ اس وقت ہما رے بنگلے کے قر یب ہی کہیں کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہو گا ‘‘۔

’’عجیب آدمی معلوم ہو تے ہیں‘‘۔را بعہ نے کہا۔

’’عجیب تر ین کہیے ۔ انگلینڈسے سا ئنس میں ڈا کڑ یٹ لے کر آیا ہے ۔لیکن اس کی حرکا ت‘وہ آپ ا بھی دیکھ ہی لیں  گی۔ اس صدی کا سب عجیب آدمی ۔ لیجیے شا ئد وہی ہے‘‘۔

دروازے پر دستک ہوئی۔

فیا ض اُٹھ کر آگے بڑھا ۔دوسرے لمحے میں عمران ڈرائنگ روم داخل ہو رہا  تھا ۔ عو رتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیا ض سے مصافحہ کر نے لگا ۔

غا لباًمجھے سب سے پہلے یہ کہنا چا ہیے کہ آج کل کا مو سم بڑا خو شگوار رہا ‘‘۔عمران بیٹھتا ہو ا بو لا ۔

فیا ض کی بیوی ہنسنے  لگی اور رابعہ نے جلدی سے تا ر یک شیشوں وا لی عینک لگا لی۔

’’آپ سےملئے ۔آپ مِس رابعہ ہیں ‘ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسڑعلی عمران ‘میرے محکمے کے ڈائر کڑ جنرل رحما ن صاحب کے صاحبزادے ‘‘۔

’’بڑی خوشی ہوئی‘‘۔ عمران مسکرا کر بولا ۔ پھر فیاض سے کہنے لگا ۔’’تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھو نستے رہے ہو جو بہت گراں گزرتے ہیں ۔رحمان صاحب  کے صاحبزادے دونوں صا حبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔اس کے بجائے رحمان صاحب کے صاحب زادے یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے تھے‘‘۔

’’میں لڑیری آدمی نہیں ہوں ‘‘۔فیاض مسکرا کر بولا ۔

دونوں خواتین بھی مسکرا رہی تھیں ۔ پھر را بعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اوروہ دونوں ڈرائنگ روم سے اُٹھ کر چلی گئیں۔

’’بہت اچھا ہوا ‘‘۔عمران برا سا منہ بنا کر بو لا۔’’تو کیا تم نے اُسے بھی مدعو کیا تھا ‘‘۔

’’ہا ں !بھئی کیوں نہ کرتا ۔ میں نے سوچا کہ اسی بہانے سے تمہارے ملا قات بھی ہو جا ئے گی ‘‘۔

’’مگر مجھے بڑی کو فت ہورہی ہے ‘‘۔عمران نے کہا ۔

’’کیوں ؟‘‘

’’آخر اُس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگا لیا ہے‘‘۔

’’اپنا نقص چھپانے کے لیے ‘‘۔